کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 19
’’مجھ سے پہلے جو بھی نبی گزرا ،اس پر واجب تھا کہ اپنی اُمت کی خیر کی طرف راہنمائی کرے اور ان کو برائی سے روکے۔ اس اُمت کی عافیت اس کی ابتدا میں رکھی گئی ہے اور اس کے آخر میں لوگ آزمائش اور ناپسندیدہ اُمور کا سامنا کریں گے۔ کوئی فتنہ آئے گا تو اس کا بعض حصہ بعض حصے کو خوشنما بنا دے گا،پھر فتنہ آئے گا تو مؤمن کہے گا:یہ مجھے ہلاک کر دے گا، جب وہ گزر جائے گا تو مؤمن کہے گا کہ یہ میری ہلاکت کا باعث ہے۔جو آدمی چاہتا ہے کہ وہ جہنم سے بچ جائے اور جنت میں داخل ہو تو پھر اس کی موت اس حال میں آنی چاہیےکہ وہ اللہ اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اور لوگوں سے ایسا سلوک کرے جس کی توقع وہ اپنے لیے کرتا ہے۔‘‘ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی ایسے امر کی طرف توجہ فرمائی جو لوگوں کو ان فتنوں ، برائیوں اور گناہوں سے محفوظ رکھے،لہٰذا آپ نے ان کو حکم دیا کہ ان فتنوں سے اللہ کی پناہ پکڑو، اعمالِ صالحہ میں جلدی، اللہ اور آخرت کے دن پر ایمانِ کامل اور مسلمانوں کی جماعت کو لازم پکڑنے کے ساتھ ان فتنہ سے دوری اختیار کرو۔ 4. اس معنی میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بھی ہے: (( تعوذوا بالله من الفتن ما ظهر منها وما بطن)) [1] ’’ تم ظاہری اور باطنی فتنوں سے اللہ تعالیٰ کی پناہ طلب کرو۔‘‘ 5. حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: " كَانَ النَّاسُ يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم عَنِ الْخَيْرِ، وَكُنْتُ أَسْأَلُهُ عَنِ الشَّرِّ مَخَافَةَ أَنْ يُدْرِكَنِي‏.‏ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا كُنَّا فِي جَاهِلِيَّةٍ وَشَرٍّ، فَجَاءَنَا اللَّهُ بِهَذَا الْخَيْرِ، فَهَلْ بَعْدَ هَذَا الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ ‏"‏ نَعَمْ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ وَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الشَّرِّ مِنْ خَيْرٍ قَالَ ‏"‏ نَعَمْ، وَفِيهِ دَخَنٌ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ وَمَا دَخَنُهُ قَالَ ‏"‏ قَوْمٌ يَهْدُونَ بِغَيْرِ هَدْيِي تَعْرِفُ مِنْهُمْ وَتُنْكِرُ ‏"‏‏.‏ قُلْتُ فَهَلْ بَعْدَ ذَلِكَ الْخَيْرِ مِنْ شَرٍّ قَالَ ‏"‏ نَعَمْ دُعَاةٌ إِلَى
[1] صحيح مسلم:2867