کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 17
ساتھ جانچ کرے تاکہ تو اس کی عمدگی دیکھے۔‘‘ 1.مطلوب سے غفلت کے معنی میں جیساکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّمَاۤ اَمْوَالُكُمْ وَ اَوْلَادُكُمْ فِتْنَةٌ1.[1] ’’تمہارے مال اور اولاد تو سراسر تمہاری آزمائش ہیں۔‘‘ 2. دین سے پلٹنے پر مجبور کرنےکے معنی میں مستعمل ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ﴿اِنَّ الَّذِيْنَ فَتَنُوا الْمُؤْمِنِيْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ﴾[2] ’’بے شک جن لوگوں نے مسلمان مردوں اور عورتوں کو ستایا۔‘‘ اور یہ فتنہ ،گمراہی، گناہ، کفر اور عذاب کے معنی میں بھی استعمال ہوتاہے۔ان تمام معانی کا اعتبار سیاق وقرائن سے ہو گا۔بہت زیادہ صحیح نصوص دلالت کرتی ہیں کہ علاماتِ ساعہ میں سے کثرتِ ہرج بھی ہے اور وہ قتل ، فساد ، فتنوں کا ظہور، ان کا پھیلنا، شہروں میں ان فتنوں کا نازل ہونا، ان کی مصیبت اور ہولناکی کا بڑھنا ہے، یہاں تک کہ ان فتن کے شدتِ وقوع سے مسلمان آدمی شام کو کافر ہو گا اور صبح کو مؤمن ہو گا۔صبح کو مؤمن ہو گا تو شام کو کافر ہو گا اور ایک فتنہ دوسرے کے پیچھے آئے گا تو مؤمن کہے گا یہ مجھے ہلاک کر دے گا، پھر وہ گزر جائے گا اور دوسرا ظاہر ہو گا تو وہ کہے گا یہی ہے مجھے ہلاک کرنے والا؛ جب تک کہ اللہ چاہے گا۔پس زمانہ گزرتا جائے گا ا ور اس کے بعد شر ہو گا جیسے جیسے زمانہ اپنے اہل کے ساتھ طویل ہو گا اور ان سے بعید ہو گا تو فتنے مصائب کے لحاظ سے زیادہ سخت اور عظیم ہوں گے۔جیسا کہ شریعت کی نصوص اس پر شاہد ہیں اور اس پر کئی حوادثات وواقعات بھی دلالت کرتے ہیں: 1.حضرت زبیر بن عدی سے مروی ہے ،کہتے ہیں کہ ہم ا نس بن مالک کے پاس آئے تو ہم نے حجاج سے ملنے والی تکالیف کی آپ سے شکایت کی تو آپ نے کہا: میں نے تمہارے نبی سے سنا ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( اصبروا فإنه لا يأتي عليكم زمان إلا الذي بعده شر منه حتى تلقوا ربكم)) [3]
[1] التغابن:15 [2] البروج:5 [3] صحیح بخارى:7068