کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 14
’’ قیامت قائم نہیں ہو گی یہاں تک کہ حجاز کی سرزمین سے آگ نکلے گی جس سے بصری میں اونٹوں کی گردنیں روشن ہو جائیں گی۔‘‘ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’مدینہ منورہ میں ہمارے زمانے (654ھ) میں حرۃ (میدان) کے پیچھے شہر کی مشرقی جانب سے آگ نکلی اور وہ آگ بہت بڑی تھی۔تمام شام اور شہر والوں کے نزدیک اس کا علم تواتر سے ہے اور مجھے اس شخص نے اس آگ کے بارے میں بتایا ہے جو اہل مدینہ میں سے وہاں موجود تھا۔‘‘ حافظ ابن کثیر رحمۃاللہ علیہ فرماتے ہیں: ’’شیخ شہاب الدین ابوشامہ (جو اپنے زمانے میں شیخ المحدثین اور استاذ المؤرخین تھے)نے ذکر کیا ہے کہ (654ھ میں ) جمعہ کے دن جمادی الآخر کی پانچ تاریخ کو مدینہ منورہ کی بعض وادیوں میں ایسی آگ پھیلی ہوئی جس کی لمبائی چار فرسخ اور چوڑائی چار میل تھی۔ وہ چٹانوں پر بہہ رہی تھی یہاں تک کہ اس کی چٹانیں شیشے کی طرح ہو گئیں پھر وہ سیاہ کوئلے کی طرح ہو گئیں۔ اس کی روشنی میں لوگ رات کے وقت تیماء شہر(جو مدینہ منورہ کےشمال میں 420 کلو میٹر کی دوری پر واقع ہے) تک جاتے تھے اور یہ آگ ایک ماہ تک رہی۔اہل مدینہ نے اسے یاد رکھا ہے اور اس کے بارے میں اشعار بھی کہے ہیں۔یہ آگ اس آگ کے علاوہ ہے جو آخری زمانے میں نکلے گی، لوگوں کو جمع کرے گی، ان کے ساتھ رات گزارے گی ،جہاں وہ رات گزاریں گے اور ان کے ساتھ قیلولہ کرے گی، جہاں وہ قیلولہ کریں گے ۔ اس مضمون کے دوسرے حصے میں قیامت کی بڑی نشانیوں میں اس کا ذکر ہو گا۔‘‘ حافظ ابن حجر رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ’’وہ بات جو میرے لیے واضح ہوئی وہی ہے جسے قرطبی وغیرہ نے سمجھا ہے، لیکن وہ آگ جو لوگوں کو جمع کرے گی تو وہ دوسری آگ ہے۔‘‘ [1]
[1] فتح الباری:13/79