کتاب: محدث شمارہ 352 - صفحہ 11
3. انس بن مالک کی حدیث ہے ،کہتے ہیں کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((بعثت أنا والساعة كهاتين)) [كفضل أحدهما علىٰ الأخرى] وضم السبابة والوسطی[1] ’’میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جیسے ان دو انگلیوں میں سے ایک کی دوسری پر برتری ہے۔آپ نے سبابہ اور وسطی انگلی کو ملایا۔‘‘ یہ احادیث اور اس معنی کی دوسری احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت قیامت کی پہلی نشانی ہے کہ آپ خاتم النّبیین اور آخر المرسلین ہیں۔ آپ کے بعد کوئی نبی نہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے قریب قیامت کا قائم ہونا اس طرح ہے جیسے تشہد کی انگلی سے درمیانی انگلی قریب ہے جیسا کہ یہ تشبیہ گذشتہ احادیث میں وارد ہوئی ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ قیامت کی علامات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں:’’پہلی علامت خود نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں،کیونکہ آپ نبی آخر الزمان ہیں۔آپ کے اور قیامت کے درمیان کوئی نبی نہیں۔‘‘ حافظ ابن رجب رحمہ اللہ کا قول ہے : انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان (( بعثت أنا والساعة کهاتین)) کی تفسیر یوں کی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبابہ اور وسطی انگلیوں کو ملایا ۔ یعنی قیامت کا قربِِ زمانہ ایسا ہے جیسے سبابہ کی وسطی سے قربت ہے کہ آپ کی بعثت کے بعد آپ کے اور قیامت کے درمیان کسی دوسرے نبی کے آئے بغیر قیامت قائم ہو گی۔ جیساکہ صحیح حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((أنا الحاشرالذي يحشر الناس على قدمي، وأنا العاقب)) [2] ‌’’ میں حاشر ہوں،لوگ قیامت کے دن میرے قدموں پر جمع کیے جائیں گے۔‘‘ معلوم ہواکہ حاشر وہ ہے جس کے قدم پر لوگ قیامت کے دن جمع کیے جائیں گے یعنی لوگوں کا اُٹھنا اور ان کا جمع ہونا آپ کی بعثت کے بعد ہوگا۔تو آپ رسالت اور اپنے عاقب ہونے کے ساتھ مبعوث ہوئے ہیں۔لوگ اپنے حشر کے لیے اکٹھے کیے جائیں گے۔عاقب وہ جو تمام انبیا
[1] صحیح مسلم:2951 [2] صحیح بخاری:3532