کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 9
البحرين قاعد فوقعت الكرة على صدره فأخذها، فجعلوا يطلبونها منه فأبٰى، فقال غلامهم: سألتك بحق محمد صلی اللہ علیہ وسلم إلا رددتها علينا، فأبى -لعنه الله- وسبّ رسول الله، فأقبلوا عليه بصواليجهم، فما زالوا يخبطونه حتى مات، فرفع ذلك إلى عمر رضی اللہ عنہ بن الخطاب، فوالله ما فرح بفتح ولا غنيمة كفرحه بقتل الغلمان لذلك الأسقف، وقال: الآن عزّ الإسلام، إن أطفالا صغارًا شُتم نبيهم، فغضبوا له وانتصروا [1]
’’اہالیانِ بحرین کے بچے باہر نکل کر صوالجہ (ہاکی جیسا ) کھیل رہے تھے اور بحرین کا بڑا پادری وہاں بیٹھا ہواتھا۔ اچانک گینداس کے سینے پر جالگا تو اس نے اسےپکڑ لیا، بچے اس سے گیند مانگنے لگے، اُس نے دینے سے انکار کردیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی گالی دی۔ سارے بچے مل کر اپنی کھیل کی لاٹھیوں کے ساتھ اس پر پل پڑے اور اس کو اس وقت زدو کوب کرتے رہے حتیٰ کہ وہ مر گیا۔ یہ قضیہ عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کی طرف بھیجا گیا تو بخدا آپ فتح یا مال غنیمت سے اس قدر خوش نہیں ہوئے جتنے بچوں کے اس بشپ کو قتل کرنے پر مسرور ہوئے۔ اور آپ نے کہا کہ آج اللہ نے اسلام کو عزت دے دی ہے کہ بچوں نے اپنے نبی کی گستاخی پرغیض وغضب کا مظاہرہ کیا اور اُنہوں نے انتقام لے لیا۔‘‘
7. عبد اللہ بن سعد رضی اللہ عنہ بن ابو سرح، عکرمہ بن ابی جہل، مقیس بن صبابہ اور عبد اللہ بن خطل کا مشہور واقعہ جس میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے روز اُنہیں کعبۃ اللہ سے لٹکے پائے جانے کے باوجود قتل کرنے کا حکم صادر فرمایا تھا، جس کے نتیجے میں صحابی سعید بن حریث نے عبد اللہ بن خطل کو بیت اللہ کے پردے سے لٹکنے کی حالت میں قتل کردیا اور مقیس کو صحابہ نے بازار میں قتل کیا،بعد میں عبد اللہ بن ابوسرح کا سیدنا عثمان کے ذریعے آپ سے معافی اور امان طلب کرنے کی کوشش کا تفصیلی واقعہ۔ اس مرحلہ پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کو یوں تنبیہ کی تھی :
فَنَظَرَ إِلَيْهِ ثَلَاثًا كُلَّ ذَلِكَ يَأْبَى فَبَايَعَهُ بَعْدَ ثَلَاثٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَى
[1] ’ربیع الابرار‘ از زمخشری:1/403... المستطرف فی كل فن مستظرف: ج 1/ ص 462