کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 8
بعد آپ رضی اللہ عنہ کے پاس فیصلہ کے لئے آیا تھا، قتل کردیا تھا۔ اس کے ورثا یہ معاملہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لے کر گئے اور نبی کریم کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے اس واقعہ کی خبر دے دی تھی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مقتول کا خون رائیگاں قرار دیا۔
اس مرحلہ پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے یہ الفاظ قابل توجہ ہیں:
هٰكذا أقضي بين من لم يرض بقضاء رسول الله. فأتٰى جبريل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فقال: إن عمر رضی اللہ عنہ قد قتل الرجل وفرق الله بين الحق والباطل على لسان عمر. فسُمِّي الفاروق [1]
’’ اس (بظاہرمسلمان) کے بارے میرا فیصلہ یہ ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے کو تسلیم نہیں کرتا۔ پھر جبریل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اُنہیں بتایا کہ عمر رضی اللہ عنہ نے اس کو قتل کردیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ کی زبان سےحق اور باطل کا فیصلہ کردیا ہے۔ اس بنا پر عمر رضی اللہ عنہ کا نام ’فاروق‘ رکھ دیا گیا۔‘‘
اس مشہور واقعہ کے بارے میں یاد رہنا چاہئے کہ ابن لہیعہ کے ضعیف طریق کے علاوہ ابومغیرہ اور شعیب بن شعیب کی صحیح سند سے بھی مروی ہے۔اس بنا پر اما م احمد بن حنبل رحمہ اللہ ، علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ ، اور حافظ ابن کثیر رحمہ اللہ کی تحقیق یہ ہے کہ دیگر صحیح اسانید کی بنا پر یہ واقعہ پایۂ ثبوت کو پہنچتا ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس واقعہ کے تذکرہ کے بعد لکھتے ہیں:
و هٰذا المرسل له شاهد من وجه آخر يصلح للاعتبار [2]
’’دیگر شواہد کی بنا پر اس مرسل روایت پر اعتبار کرنا درست ہے۔‘‘
مذکورہ بالا دونوں واقعات میں اللہ تعالیٰ نے خود اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو شاتم رسول کے قتل کئے جانے کی خبر دی، جبکہ پہلے واقعہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے قاتل کی تعریف بھی فرمائی اور دوسرے واقعہ میں جبریل امین نے یہ کہہ کر عمر رضی اللہ عنہ فاروق کی تعریف کی کہ ’’اللہ تعالیٰ نے عمر رضی اللہ عنہ کی زبان پر حق وباطل کو نمایاں کردیا۔‘‘
6. سیدنا عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب کے دور میں بحرین کے بشپ کوبھی یونہی قتل کیا گیا :
أن غلمانًا من أهل البحرين خرجوا يلعبون بالصوالجة، وأسقف
[1] تفسیر الدر المنثور: 2/180، لباب النقول: 1/90، مسند الفاروق: 2/876
[2] الصارم المسلول از شیخ الاسلام ابن تیمیہ : 1/43