کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 7
قَالَ: نَعَمْ بِأَبِي أَنْتَ يَا رَسُولَ الله... فَالْتَفَتَ النّبِيّ صلی اللہ علیہ وسلم إلَىٰ مَنْ حَوْلَهُ فَقَالَ: «إذَا أَحْبَبْتُمْ أَنْ تَنْظُرُوا إلَى رَجُلٍ نَصَرَ اللّهَ وَرَسُولَهُ بِالْغَيْبِ فَانْظُرُوا إلَى عُمَيْرِ بْنِ عَدِيّ» [1]
’’ہاں ! میرے ماں باپ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوئے اور کہا کہ اگر تم ایسے شخص کو دیکھنا چاہو جس نے غیب سے اللہ اور اس کے رسول کی مدد کی ہے تو عمیر بن عدی کو دیکھ لو۔‘‘
اسی موقع پر شاعر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا حسان رضی اللہ عنہ بن ثابت نے یہ شعر کہے :
بَنِي وَائِــلٍ وَبَنِــي وَاقِــف ٍ وَخَطْمَـةَ دُونَ بَنِي الْخَزْرَج ِ
مَتَى مَا دَعَتْ أُخْتُكُمْ وَيْحَهَا بِعَوْلَتِــهَا وَالْمَنَــايَا تَجِــي
فَهَـزّتْ فَتًى مَاجِدًا عِرْقُــهُ كَرِيمَ الْمدَاخِلِ وَالْمَخْــرَجِ
جس فعل کی زبانِ رسالت سے تائید صادر ہوئی ہو، اس کے بارے میں یہ کیونکر کہا جاسکتاہے کہ نعوذ باللہ وہ قابل سزا جرم ہے۔
4. یہودیہ کا قتل
شاتم رسول کو خود سزا دینے کی تائید سیدنا علی کی اس حدیث سے بھی ہوتی ہے :
أن یهودیة کانت تشتم النبي صلی اللہ علیہ وسلم وتقع فیه فخنقها رجل حتٰى ماتت فأبطل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم دمها [2]
’’بلا شبہ ایک یہودی عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو گالیاں دیا کرتی اور آپ کے بارے میں نازیبا کلمات کہا کرتی تھی۔ ایک آدمی نے اس کا گلا گھونٹ دیا ،یہاں تک کہ وہ مرگئی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون باطل قرار دیا۔‘‘
5. خیرالقرون میں ایسے واقعات اور بھی ہیں جن میں شاتم رسول کو از خود سزا دی گئی اور بعد میں عدالت ِنبویہ یا خلفائے راشدین کے پاس ایسے مقتولین کی شکایت کی گئی اور حاکم وقت نے ایسے معاملات کو نظر انداز کیا۔ ان واقعات میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا وہ مشہور واقعہ بھی ہےجب اُنہوں نے ایک ایسے منافق کو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فیصلہ تسلیم نہ کرنے کے
[1] کتاب الاموال از ابو عبید قاسم، طبقات ِسعد،المغازی للواقدی:ج 1/ ص 174، الصارم المسلول:1/104
[2] ابو داود:4362، السنن الکبرٰی للبیہقی:7/60، 9/200، 9/375 علامہ البانیؒ نے فرمایا: إسناده صحیح علىٰ شرط الشیخین ’’اسکی سند بخاری ومسلم کی شرط پر صحیح ہے۔‘‘ (ارواء الغلیل : 5/91، رقم 1251)