کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 6
مشکوک شخص کو قتل کربیٹھتے تو عمیر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اورسارے معاملے کی خبر دی۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمیر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ
فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ:«أَقَتَلْتَ أُخْتَكَ؟» قَالَ: نَعَمْ، قَالَ:«وَلِمَ؟»قَالَ: إِنَّهَا كَانَتْ تُؤْذِينِي فِيكَ، فَأَرْسَلَ النَّبِيُّ صلی اللہ علیہ وسلم إِلىٰ بَنِيهَا، فَسَأَلَهُمْ، فَسَمَّوْا غَيْرَ قَاتِلِهَا، فَأَخْبَرَهُمُ النَّبِيُّ بهِ وَأَهْدَرَ دَمَهَا قالوا: سَمْعًا وَّطَاعَةً [1]
’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: کیا تو نے اپنی بہن کو قتل کردیا ہے؟ جواب دیا: ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تو نے اسے کیوں قتل کیا؟ عمیرنے جواب دیا: وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہہ کر مجھے تکلیف دیتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس عورت کے بیٹوں کی طرف پیغام بھیج کر، اُن سے قاتلوں کے بارے میں دریافت کیا۔ اُنہوں نے کسی اور کا نام لیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں صحیح قاتل کے بارے میں بتایا اور اس عورت کا خون رائیگاں قرار دیاتو اُن بیٹوں نے کہا: ہم نے سنا اور مان لیا۔ ‘‘
مذکورہ بالا دونوں واقعات میں گستاخ رسول کو سزا دینے والے نے قانون کو ہاتھ میں لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قانون کو ہاتھ میں لینے پر اُن کو کوئی سزا دینے کی بجائے ، اہانتِ رسول کا جرم ثابت ہوجانے پر مقتولین کا خون رائیگاں قرار دیا اور قاتلوں پر کوئی سزا عائد نہ کی بلکہ ذیل کے دو واقعات میں تو شاتم رسول کو کیفر کردار تک پہچانے والے کے حق میں زبان رسالت سے تعریف بھی مذکور ہے، ملاحظہ فرمائیے:
3. بنو خطمہ کی شاتمہ عصما بنت ِمروان کا قتل
عصما بنتِ مروان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی کرتی، آپ کو ایذا پہنچاتی اور لوگوں کوآپ کے خلاف اُبھارتی، اکثرہجویہ اشعار پڑھاکرتی۔ عمیر بن عدی خطمی رضی اللہ عنہ تک جب یہ اشعار پہنچے او رنبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عیب جوئی پہنچی تو اُنہوں نے اِس گستاخ عورت کو قتل کرنے کی نذر مان لی۔ جنگ ِبدر سے واپسی پر ایک رات عمیر رضی اللہ عنہ نے اس عورت کو اس کے گھر میں داخل ہوکر قتل کردیا۔ یہ بات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے وحی کے ذریعے بتا دی۔ قتل کرنے کے بعد عمیر رضی اللہ عنہ نے فجر کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ پڑھی تو آپ نے کہا : تم نے آخر کار اُسے قتل کردیا ؟
[1] المعجم الکبیر للطبرانی 17/64(124)، مجمع الزوائد:6/398 (10570) ورُواته ثقات، اسد الغابہ:4/273، الاصابہ:4/590