کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 5
فَجَمَعَ النَّاس،َ وَقَالَ: أَنْشُدُ اللَّهَ رَجُلًا لِي عَلَيْهِ حَقٌّ فَعَلَ مَا فَعَلَ إِلَّا قَامَ فَأَقْبَلَ الْأَعْمَى يَتَدَلْدَلُ. فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنَا صَاحِبُهَا كَانَتْ أُمَّ وَلَدِي، وَكَانَتْ بِي لَطِيفَةً رَفِيقَة،ً وَلِي مِنْهَا ابْنَانِ مِثْلُ اللُّؤْلُؤَتَيْنِ، وَلَكِنَّهَا كَانَتْ تُكْثِرُ الْوَقِيعَةَ فِيكَ وَتَشْتُمُكَ، فَأَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي، وَأَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ، فَلَمَّا كَانَتْ الْبَارِحَةُ ذَكَرْتُكَ فَوَقَعَتْ فِيكَ، فَقُمْتُ إِلَى الْمِغْوَلِ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا فَاتَّكَأْتُ عَلَيْهَا حَتَّى قَتَلْتُهَا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-: " أَلَا اشْهَدُوا أَنَّ دَمَهَا هَدَر )) [1] ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ایک نابینا صحابی تھا، اس کی ایک باندی تھی جس سے اس صحابی کے دو بچے تھے۔ وہ اکثر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہتی۔ نابینا اُسے ڈانٹتا لیکن وہ نہ مانتی، منع کرتا تو وہ باز نہ آتی۔ وہ شخص کہتا ہے کہ ایک رات میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا تو اُس نے آپ کی شان میں گستاخی کی۔مجھ سے صبر نہ ہوسکا، میں نے خنجر اُٹھایا اور ا س کے پیٹ میں دھنسا دیا، وہ مرگئی۔صبح جب وہ مردہ پائی گئی تو لوگوں نے اس کا تذکرہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کیا اور فرمایا: میں اسے خدا کی قسم دیتا ہوں جس پر میرا حق نبوت ہے کہ جس نے یہ کام کیا ہے وہ اُٹھ کھڑا ہو۔ یہ سن کر وہ نابینا گرتا پڑتا آگے بڑھا اور عرض کی:’’اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ میرا کام ہے، یہ عورت میری لونڈی تھی اور مجھ پر بہت مہربان اور میری رفیق تھی۔ اس کے بطن سے میرے دو ہیرے جیسے بچے ہیں، لیکن وہ اکثر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا کہتی تھی، میں منع کرتا تو نہ مانتی، جھڑکتا تو بھی نہ سنتی، آخر گزشتہ رات اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کیا اور آپ کی شان میں گستاخی کی، میں نے خنجر /برچھی اُٹھایا اور اس کے پیٹ میں مارا، یہاں تک کہ وہ مرگئی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’سب لوگو گواہ رہو، اس لونڈی کا خون رائیگاں ہے۔‘‘ 2. عمیر رضی اللہ عنہ بن اُمیّہ کا اپنی گستاخ رسول بہن کو قتل کرنا اسی نوعیت کا واقعہ عمیر بن اُمیہ کا بھی ہے،جنہوں نے گستاخی پر اپنی مشرکہ بہن کو قتل کردیا۔ جب مقتولہ کے بیٹوں نے شور وغل کیا اور قریب تھا کہ اس بنا پر وہ کسی اور
[1] سنن ابو داود ؛4361، سنن نسائی؛ 4075... علامہ البانیؒ اس حدیث کے بارے فرماتے ہیں: إسناده صحیح علىٰ شرط مسلم (إرواء الغلیل:5‎/92)