کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 40
التشریق مع الرجال في المسجد [1]
’’اور عورتیں تشریق کی راتوں میں ابان بن عثمان اورعمر بن عبدالعزیز کے پیچھے مردوں کے ساتھ مسجد میں تکبیرات کہتی تھیں۔‘‘
فوائد
1.حافظ ابن حجر رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں:
’’امام بخاری رحمہ اللہ نے اس موقف کو اختیار کیا ہے کہ تکبیرات کے دنوں میں تمام اوقات میں سبھی افراد (مرد و زن اورمقیم و مسافر) کے لیے تکبیرات کہنا مشروع ہیں اورمذکورہ بالا آثار اس موقف کی تائید کرتے ہیں۔‘‘[2]
2. امام شوکانی رحمہ اللہ کہتے ہیں:
’’راجح مسئلہ یہ ہے کہ محض نمازوں کے بعد مخصوص اوقات میں تکبیرات کہنامستحب نہیں بلکہ تکبیرات کے تمام دنوں میں ہر وقت تکبیرات کہنامستحب فعل ہے اوراوپر بیان کردہ آثار اس کی دلیل ہیں۔ ‘‘[3]
3. ایام تشریق میں تکبیرات کے مخصوص اوقات نہیں ہیں بلکہ ان دنوں میں ہر وقت تکبیرات کہنا مستحب فعل ہے۔[4] نیز جس روایت میں فرض نمازوں کے بعد تکبیرات کہنے کی تخصیص ہے، وہ روایت ضعیف ہے جوجابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یکبر في صلاة الفجر یوم عرفة إلىٰ صلاة العصر من آخر أیام التشریق حین یسلم من المکتوبات[5]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے دن نمازِ فجر سےلے کر ایام تشریق کے آخر ی دن کی نمازِ عصر تک (اس وقت) فرض نمازوں سے سلام پھیرتے وقت تکبیرات کہاکرتے تھے۔‘‘
[1] صحیح بخاری، کتاب العیدین، باب التکبیر أیام منیٰ و إذا غدا إلى العرفة
[2] فتح الباری:2/595
[3] نیل الاوطار:3/334
[4] فقہ السنہ:1/307
[5] دارقطنی:2/49: 1717، نصب الرایہ:3/406، اسنادہ ضعیف جداً، عمرو بن شمر متروک اور جابر بن یزید بن حارث جعفی ضعیف اور کذاب راوی ہے۔