کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 4
وشرعی مرحلے پر اس امر کی شدید ضرورت ہے کہ اس وقوعہ کا شریعتِ اسلامیہ کی روشنی میں تجزیہ کیا جائے اور جرم توہین رسالت کے بارے میں جو دعوے مختلف اطراف سے کئے جارہے ہیں، ان کا قرآن وسنت کی روشنی میں جائزہ لیا جائے۔ اس سلسلے میں عوام الناس، پڑھے لکھے لوگوں اور قانون سے وابستہ افراد میں ایک سوال کا بڑی شدت سے تذکرہ کیا جاتا ہے کہ قانون کو ہاتھ میں لینا ایک سنگین جرم ہے، اگر سلمان تاثیر نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا بھی تھا تو پھر عدالت کو اُس سے مطلع کرنا چاہئے تھا، نہ کہ خود قانون کو ہاتھ میں لے لیا جاتا۔ اگر قانون کو ہاتھ میں لینے کی یہ روش یونہی جاری رہی تو معاشرے میں کسی کی جان ومال محفوظ نہ رہے گی!! توہین رسالت کی شرعی سزا سے صرفِ نظر کرتے ہوئے__ کیونکہ اس ضمن میں کتاب وسنت کی واضح ہدایات اور ائمہ اسلاف کے فرامین کے علاوہ اجماع اُمت کا تذکرہ اس سے قبل متعدد بار ہوچکا ہے__ ذیل میں ہم دورِ رسالت سے ایسے واقعات کو پیش کرتے ہیں جن میں توہین رسالت کے جرم میں قانون کو ہاتھ میں لیا گیا ۔ ہم دیکھتے ہیں کہ دربارِ رسالت مآب سے ایسے مجرموں کے بارے میں کیا فیصلے صادر ہوئے؟ مغربی قانون کا یہ مسلمہ تصور ہے کہ ماتحت عدلیہ بالاتر عدالتوں کے فیصلوں کی پابند ہوتی ہیں۔مسلمان ہونے کے ناطے کسی بھی مسلمان جج کے لئے سب سے بڑی عدالت سید المرسلین اور نبی آخر الزمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت ہے، اس نوعیت کے جھگڑے اور قتل دور نبوی میں بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش آئے اور آپ نے اسلامی ریاست کے عظیم ترین اور اوّلین قاضی ہوتے ہوئے اپنی رہنمائی اُمت ِمحمدیہ کےلئے چھوڑی ہے۔ اس سلسلے میں درج ذیل احادیث ہماری رہنمائی کرتی ہیں : 1.نابینا صحابی کا گستاخِ رسول اُمّ ولد کو قتل کردینا یہ مشہور واقعہ بہت سی کتب حدیث میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے: أَنَّ أَعْمَى كَانَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَكَانَتْ لَهُ أُمُّ وَلَدٍ وَكَانَ لَهُ مِنْهَا ابْنَانِ وَكَانَتْ تُكْثِرُ الْوَقِيعَةَ بِرَسُولِ اللَّهِ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- وَتَسُبُّهُ فَيَزْجُرُهَا فَلَا تَنْزَجِرُ وَيَنْهَاهَا فَلَا تَنْتَهِي، فَلَمَّا كَانَ ذَاتَ لَيْلَةٍ ذَكَرْتُ النَّبِيَّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ- فَوَقَعَتْ فِيهِ فَلَمْ أَصْبِرْ أَنْ قُمْتُ إِلَى الْمِغْوَلِ فَوَضَعْتُهُ فِي بَطْنِهَا فَاتَّكَأْتُ عَلَيْهِ فَقَتَلْتُهَا فَأَصْبَحَتْ قَتِيلًا فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ -صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ-