کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 39
نہیں کیونکہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے یہ قول بھی مروی ہے کہ ’ایام معلومات‘ یوم نحر اور اس کے بعد کے تین دن ہیں اور امام طحاوی رحمہ اللہ نے اس مؤخر الذکر قول کو راجح قرار دیا ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:﴿ وَ يَذْكُرُوا اسْمَ اللّٰهِ فِيْۤ اَيَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰى مَا رَزَقَهُمْ مِّنْۢ بَهِيْمَةِ الْاَنْعَامِ1ۚ ﴾[1] سے معلوم ہوتا ہے کہ ایام معلومات سے مراد قربانی کے دن ہیں۔ (ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن نہیں) [2] ...نیز عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کا ذاتی فعل بھی ان کے اوّل الذکر قول کے مخالف ہے جیساکہ کہ عکرمہ بیان کرتے ہیں: ان ابن عباس کان یکبر من غداة عرفة إلىٰ صلاة العصر من آخر أیام التشریق [3] ’’بلا شبہ ابن عباس رضی اللہ عنہ عرفہ کی فجر سے لے کر ایام تشریق کےآخری دن کی نماز عصر تک تکبیرات کہا کرتے تھے۔‘‘ تکبیرات کے اوقات تکبیرات کہنے کے مخصوص اوقات نہیں ہیں بلکہ ان دنوں تمام اوقات میں تکبیرات کا اہتمام مستحب عمل ہے، اس کے دلائل درج ذیل ہیں: 1.کان عمر رضی اللہ عنہ یکبر في قبته بمنی فیسمعه أهل المسجد فیکبرون و یکبر أهل الأسواق حتی ترتج منٰی تکبیرا ’’عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں اپنے خیمے میں تکبیرات کہتے اوران کی تکبیرات سن کر اہل مسجد اور بازار میں موجود لوگ تکبیرات کہتے حتیٰ کہ منیٰ تکبیر کی آواز سے گونج اُٹھتا۔‘‘ 2. وکان ابن عمر رضی اللہ عنہ یکبر بمنٰی تلك الأیام وخلف الصلوات وعلىٰ فراشه وفي فسطاطه و مجلسه و ممشاه و تلك الأیام جمیعًا ’’ابن عمر رضی اللہ عنہ منیٰ میں، منیٰ کے دنوں میں، نمازوں کے بعد، اپنے بستر پر ، اپنے خیمے میں، اپنی مجلس میں اور چلتے پھرتے ان تمام دنوں میں تکبیرات کہا کرتے تھے۔‘‘ 3. وکان النساء یکبرن خلف أبان بن عثمان و عمر رضی اللہ عنہ بن عبد العزیز لیالي
[1] سورة الحج:28 ’’اور وہ چند معلوم دنوں میں اللہ کا ذکرکریں جو اللہ نے اُنہیں پالتو جانور عطا کئے ہیں۔‘‘ [2] فتح الباری :2/590 [3] مستدرک حاکم :1/299، بیہقی:3/314،اسنادہ صحیح