کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 37
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب یومِ عرفہ کی صبح نمازِ فجر ادا کرتے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی طرف متوجہ ہوکر ارشاد فرماتے، اپنی جگہوں پر ٹکے رہو اور (یہ کلمات) الله أکبر، الله أکبر، الله أکبر، لا إله إلا الله والله أکبر ولله الحمد کہتے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کی صبح سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی نماز عصر تک تکبیرات کہتے رہتے تھے۔‘‘ [1]
2. جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، وہ بیان کرتے ہیں:
کان رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم یکبر في صلاة الفجر یوم عرفة إليٰ صلاة العصر من آخر أیام التشریق حین یسلم من المکتوبات [2]
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عرفہ کے دن نمازِ فجر سے لے کر ایام تشریق کے آخری دن کی نمازِ عصر تک فرض نمازوں سے سلام کے بعد تکبیرات کہا کرتے تھے۔‘‘
اس میں عمرو بن شمر متروک ہے اورجابر جعفی ضعیف و کذاب راوی ہے۔
اس بارے کئی اور ضعیف روایات بھی موجود ہیں لیکن بخوفِ طوالت انہیں بیان کرنے سے اجتناب کیا گیا ہے۔
کیا یکم ذوالحجہ سمیت ذوالحجہ کے ابتدائی آٹھ دنوں میں تکبیرات کہنا مشروع ہے؟
عیدالاضحیٰ کا چاند نظر آنے پر تکبیرات شروع کرنے کے بارے کوئی واضح صحیح دلیل موجود نہیں ہے۔ بلکہ اس بارے میں منقول مرفوع و موقوف روایات ضعیف اور ناقابل حجت ہیں لہٰذا صحیح موقف کی رو سے عیدالاضحیٰ میں تکبیرات کا آغاز نو ذوالحجہ کی فجر کےوقت کرنا چاہیے اور اختتام تیرہ ذوالحجہ کی عصر کےبعد کرنا چاہیے جیسا کہ گزشتہ بحث میں مفصل وضاحت بیان ہوئی ہے۔
ضعیف روایات کا بیان
1.عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((ما من أیام أعظم عند الله ولا أحب إلیه من العمل فیهن من هذه
[1] دارقطنی:1719، ارواء الغلیل:3/124، ضعیف جداً اس حدیث کی سند میں عمرو بن شمر متروک راوی اورجابر جعفی ضعیف راوی ہے۔
[2] دارقطنی:2/49:1718، ضعیف جداً