کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 33
بال اور ناخن کاٹنے کے بارے میں مذاہب و آرا قربانی کا ارادہ رکھنےوالے شخص کےلیے ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں بال اورناخن زائل کرنا حرام ہے، مکروہ تنزیہی ہے یا جائز؟ اس بارے میں ائمہ اربعہ کی مختلف آرا ہیں۔ جنہیں ذکر کرنےکے بعد راجح موقف کی نشاندہی کی جائے گی۔ 1.سعید بن مسیب ، ربیعہ، احمد بن حنبل، اسحٰق بن راہویہ، داؤد ظاہری اور بعض شافعیہ کا موقف ہے کہ جس نے قربانی کرنی ہے،اس کےلیے جسم کے کسی حصہ کےبال اُتارنا اور ناخن تراشنا حرام ہے ، تاوقتیکہ وہ قربانی نہ کرلے۔ 2. امام شافعی رحمہ اللہ اوران کےاصحاب کا مذہب ہے کہ یہ عمل مکروہ تنزیہی ہے، حرام نہیں۔ 3. امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں: ’’ یہ عمل مکروہ نہیں (بلکہ جائز ہے) کیونکہ قربانی کرنے والے پرنہ تو بیوی سے مباشرت حرام ہے اورنہ لباس پہننا۔ لہٰذا جیسےقربانی نہ کرنے والے کے لیے بال اُتروانا اورناخن تراشنامکروہ نہیں،اسی طرح قربانی کرنے والے کے لیے بھی یہ چیزیں مکروہ نہیں۔ ‘‘[1] 4. امام مالک رحمہ اللہ سے تین اقوال منقول ہیں: ’’1.مکروہ نہیں۔ 2.مکروہ ہے۔ 3.نفل قربانی میں حرام اور فرض قربانی میں غیر مکروہ ہے۔‘‘[2] راجح موقف: اوّل الذکرعلماء کاموقف کہ ذوالحجہ کے ابتدائی دس دنوں میں بال اورناخن زائل کرنا حرام ہے، راجح ہے کیونکہ نہی حرمت پر دلالت کرتی ہے اور یہاں کوئی قرینہ صارفہ نہیں جو نہی کو کراہت پرمحمول کرے۔ جیساکہ ابن قدامہ حنبلی کہتے ہیں: ’’یہاں نہی حرمت کو متقاضی ہے۔‘‘ [3] اور امام شوکانی رقم طراز ہیں کہ ’’(مذکورہ حدیث کا) ظاہر مفہوم حرمت کے قائلین کے موقف کی تائید کرتا ہے
[1] نیل الاوطار:5/119 لیکن حدیث الباب اس موقف کی تردید کرتی ہے۔ [2] شرح النووی:13/137، المغنی ابن قدامہ الشرح الکبیر :11/96 [3] المغنی لابن قدامہ مع شرح الکبیر:11/96