کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 30
حضرت کریب رضی اللہ عنہ جو ابن عباس رضی اللہ عنہ کے غلام ہیں، سے مروی ہے کہ
’’عباس رضی اللہ عنہ کی زوجہ اُمّ فضل رضی اللہ عنہا نے اُنہیں (کریب رضی اللہ عنہ کو) معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس شام بھیجا۔ کریب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے شام آکر ان کا کام کیا۔میں ابھی شام ہی میں تھا کہ رمضان کا چاند نظر آگیا۔میں نے بھی جمعہ کی رات چاند دیکھا، پھر میں رمضان کے آخر میں مدینہ واپس آگیا۔عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے چاند کے بارےمیں مجھ سے دریافت کیا کہ تم نے (وہاں) چاند کب دیکھاتھا؟ میں نے جواب دیا: ہم نے تو جمعہ کی رات کو دیکھا تھا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے پھر پوچھا:کیا تم نے بھی دیکھا تھا؟ میں نے جواب دیا : ہاں،بہت سے آدمیوں نے بھی دیکھا تھا اورسب لوگوں نے معاویہ رضی اللہ عنہ کےساتھ (دوسرے دن بھی یعنی ہفتہ کا) روزہ رکھا تھا۔ عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہم نے تو چاند ہفتہ کے دن (یعنی ایک دن کے فرق سے) دیکھاہے۔ ہم اسی حساب سے روزے رکھتے رہیں گے، یہاں تک کہ تیس دن پورے کرلیں۔کریب رضی اللہ عنہ نے کہا: کیا آپ معاویہ رضی اللہ عنہ کی رؤیت اوراُن کے روزے کو کافی نہیں سمجھتے۔ فرمایا:نہیں! ہمیں رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی طرح حکم فرمایا ہے۔‘‘[1]
اس حدیث سے پتا چلا کہ ہرعلاقے کا علاقائی طور پر چاند کا نظر آنا اور دیکھنا معتبر ہوگا۔ اور روزہ ، عیدین، یوم عاشوراء ، یوم عرفہ اوردوسرے تمام شرعی احکامات میں ہر علاقہ کی اپنی رؤیت ہی معتبر ہوگی۔ [2]
سال بھر کا افضل دن
ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن اس بنا پر بھی اہم ہیں کہ ان میں دسویں ذوالحجہ کا دن سال بھر کے ایام سے افضل و ارفع ہے۔ عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إن أعظم الأیام عند الله یوم النحر ثم یوم القر وهو الذي يليه)) [3]
’’اللہ تعالیٰ کے نزدیک عظیم ترین دن یوم نحر (دس ذوالحجہ) پھر دس ذوالحجہ سے اگلا دن (گیارہ ذوالحجہ) ہے۔‘‘
[1] مختصر صحیح مسلم:578
[2] احکام و مسائل از حافظ عبدالمنان نور پوری:2/418،419
[3] سنن ابی داؤد:1765؛ مسند احمد: 4/ 350؛ صحیح ابن خزیمۃ: 2917؛ مستدرک حاکم: 4/ 221، اسنادہ صحیح