کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 3
پھانس بنا ہوا ہے۔ اس کو معاف کیا جائے تو پاکستان کے اہل اقتدار،ذمہ داران اور ایسے دین بیزار قائدین کی جان کو ہر وقت خطرات لاحق رہتے ہیں جو بیانات دیتے ہوئے اسلامی تقاضوں کی پروا نہیں کرتے۔ ممتاز قادری نے محافظ ہوتے ہوئےجس جارحیت کے ساتھ سابق گورنر پر گولیوں کا برسٹ مارا ہے، اس میں دوسروں کے لئے عبرت کے بہت سے نشان موجود ہیں۔ دوسری طرف قانون کو ہاتھ میں لینا اور کسی کے ماورائے عدالت قابل قتل ہونے کا ذاتی فیصلہ کرکے اس پر عمل درآمد کرلینا، ایک ایسے باب کو کھولنے کے مترادف ہے جو پاکستان میں قتل وغارت گری کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع کردے گا۔ لیکن اگر ممتاز قادری کو سزا دی جائے تو وہ کون ہے، جو شانِ رسالت میں گستاخی کرنے والے کاحامی وناصر بننا پسند کرے۔کیونکہ ممتاز قادری نےجس صورتحال میں ارتکابِِ قتل کیا ہے، اس میں مقتول کے رویے اور اقدامات کے بارے میں ہر ذہن میں گہرے شبہات پائے جاتے ہیں اور قومی میڈیا پر ہر ایک نے اِس تحفظ کا برملا اظہار بھی کیا ہے۔
یکم اکتوبر 2011ءکو دہشت گردی کی عدالت نمبر 2کے جج پرویز علی شاہ نے 10ماہ کے بعد اڈیالہ جیل ، راول پنڈی میں ممتاز قادری کے مقدمے کا فیصلہ سناتے ہوئے قرارد یا کہ
’’آپ نے جو کام کیا ہے، اسلام کی رو سے وہ ٹھیک ہے، لیکن ملکی قانون کی دفعہ 302 ت پ کے تحت آپ کو دو بار سزاے موت اور دولاکھ روپے جرمانہ کی سزا سنائی جاتی ہے۔پانچ صفحات پر پھیلے فیصلے میں کہا گیا کہ ملزم نے کہا کہ مرتد کو مارا ہے ، قتل نہیں کیا۔اس طرح ملزم نے اعترافِ جرم کیا ہے۔فیصلے کی رو سے ممتاز قادری سات روز کے اندر ہائیکورٹ میں اپیل دائر کرسکتے ہیں۔‘‘ [1]
عدالت کے اس فیصلے کے بعد سے ملک بھر میں مظاہرے اور شدید احتجاج شروع ہو گئے، 7/اکتوبر کے جمعۃ المبارک کو دینی جماعتوں کی اتحاد کونسل نے ہڑتال کی کال دی جس کے نتیجے میں پورے ملک میں بھرپور ہڑتال منا کر، ممتاز قادری کیس کے فیصلے کے خلاف اظہارِ یکجہتی کیا گیا۔ممتاز قادری کے مسلسل انکار کے باوجود، آخرکار اُنہیں اپیل پر راضی کرلیا گیا اور لاہورہائیکورٹ کے سابق چیف جسٹس خواجہ محمد شریف اور جسٹس رنذیر احمد غازی وغیرہ پر مشتمل وکلا کی ایک کمیٹی تشکیل دی گئی جو اسلام آباد ہائیکورٹ میں اپیل کے دوران ممتاز قادری کی طرف سے دفاع اور وکالت کے فرائض انجام دے گی۔ اس اہم قانونی
[1] صفحہ اوّل ، ايضًا