کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 29
سے اُنہیں عرفہ کے دن کا روزہ رکھنے کا مکلّف قرار دیا جائے تو وہ اپنے لحاظ سے دس ذوالحجہ کو روزہ رکھیں گے۔حالانکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس دن روزہ رکھنے سے منع کیا ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا روزہ رکھیں۔
5. ہمارے اورسعودیہ کےطلوع و غروب میں دو گھنٹے کا فرق ہے۔ اگر عرفہ کے روزہ کو سعودیہ میں یومِ عرفہ سے وابستہ کردیا جائے تو جب ہم روزہ رکھیں گے تو اس وقت سعودیہ میں یومِ عرفہ کا آغاز نہیں ہوا ہوگا۔اسی طرح جب ہم روزہ افطار کریں گے تو سعودیہ کے لحاظ سے یوم عرفہ ابھی باقی ہوگا، یہ الجھنیں صرف اس صورت میں دور ہوسکتی ہیں کہ ہم اپنے روزے کو سعودیہ سے وابستہ نہ کریں بلکہ اپنے حساب سے نویں ذوالحجہ کا تعین کرلیں۔ ان وجوہات کا تقاضا ہے کہ عرفہ کا روزہ ہم اپنے لحاظ سے نویں ذوالحجہ کو ہی رکھیں، خواہ اس وقت یوم عرفہ ہو یا نہ ہو۔‘‘[1]
حافظ عبدالمنان نورپوری حفظہ اللہ کا فتویٰ
سوال: نو ذوالحجہ کے روزے کے فضائل تو حدیث میں ثابت ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ یومِ عرفہ نو ذوالحجہ کے روزہ کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ایک گزشتہ اورایک آئندہ سال کے گناہ معاف فرمائیں گے اوریوم عاشورا کے روزہ کے بدلہ میں گزشتہ ایک سال کے گناہ معاف فرمائیں گے۔ [2]
ایک عالم دین جو بخاری پڑھاتے ہیں، ان کا موقف ہے کہ عرب کا نو ذوالحجہ کا روز ہ ہمارے ہاں آٹھ ذوالحجہ کا روزہ بنتا ہے، لہٰذا ہمیں نو کے بجائے آٹھ ذوالحجہ کا روزہ رکھنا چاہیے۔ نیز عرفہ کا روزہ ، میدانِ عرفات میں حاجی صاحبان رکھیں یا نہ رکھیں؟
جواب: پاکستان اور سعودی عرب کے مابین قمری تاریخ کا فرق ہے۔کبھی ایک یوم اورکبھی دو یوم، معلوم ہے بڑی عید اور چھوٹی عید پاکستان کی تاریخ کے مطابق منائی جاتی ہے۔اسی طرح رمضان المبارک کا آغاز بھی ملکی تاریخ کے موافق ہوتا ہے۔ ان تینوں اُمور میں اپنے ملک کی قمری تاریخ کو ملحوظ رکھا جاتاہے۔ظاہر ہے اس کے جو دلائل ہیں وہ 9 ذوالحجہ پربھی صادق آتے ہیں، لہٰذا 9ذوالحجہ میں بھی اپنے ملک ہی کی قمری تاریخ معتبر ہوگی۔
[1] فتاویٰ اصحاب الحدیث:1/220،221
[2] مختصر صحیح مسلم:620