کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 28
حافظ عبدالستار حماد حفظہ اللہ کا فتویٰ سوال: سیف الرحمن صدیقی سوال کرتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ نویں ذوالحجہ کو رکھنا چاہیے یا جس دن مکہ میں عرفہ کادن ہوتا ہے؟خواہ ہمارے ہاں ذوالحجہ کی سات یا آٹھ تاریخ ہو۔ جواب:’’ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ گرامی ہے کہ ’’یوم عرفہ کا روزہ رکھنے سے گزشتہ اور آئندہ سال کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‘‘ [1] رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رسولِ رحمت ہیں اورآسان دین لے کر آئے ہیں ۔ اس رحمت اورآسانی کا تقاضا یہ ہےکہ عرفہ کا روزہ نویں ذوالحجہ کو رکھا جائے۔ سعودیہ میں یوم عرفہ کے ساتھ اس کامطابق ہونا ضروری نہیں، اس کی درج ذیل وجوہات ہیں: 1. میں نے علامہ البانی رحمہ اللہ کی تصانیف میں خود اس روایت کو دیکھا ہے، لیکن اب اس کاحوالہ مستحضر نہیں، اس روایت میں یوم عرفہ کے الیوم التاسع کے الفاظ ہیں جس کامعنی یہ ہے کہ نویں ذوالحجہ کاروزہ رکھا جائے۔ 2. تیسیر اوررحمت کاتقاضا اس طرح ہے کہ اس اُمت کو عبادت کی بجا آوری میں اپنے احوال و ظروف سے وابستہ کیا گیاہے۔ اگرچہ آج ہم سائنسی دور سے گزر رہے ہیں،لیکن آج سے چند سال قبل معلومات کے یہ ذرائع میسر نہ تھے، جن سے سعودیہ میں یوم عرفہ کا پتا لگایا جاسکتا، اب بھی دیہاتوں اور دور دراز کے باشندوں کو کیسے پتا چلے گا کہ سعودیہ میں یومِ عرفہ کب ہے تاکہ وہ اس دن روزے کا اہتمام کریں۔ لہٰذا اپنے حالات کو سامنے رکھتے ہوئے نویں ذوالحجہ کا تعین کرکے عرفہ کا روزہ رکھ لیا جائے۔ 3. روئے زمین پر ایسے خطے موجود ہیں کہ سعودیہ کے لحاظ سے یوم عرفہ کے وقت وہاں رات ہوتی ہے، ان کے لیےروزہ رکھنے کا کیا اُصول ہوگا؟ اگر اُنہیں عرفہ کے وقت روزہ رکھنے کا پابند کیا جائے تو وہ رات کا روزہ رکھیں گے حالانکہ رات کا روزہ شرعاً ممنوع ہے اور اگر وہ اپنے حساب سے روزہ رکھیں گے تو عرفہ کا وقت ختم ہوچکا ہوگا، اس لیے آسانی اسی میں ہے کہ اپنے حالات و ظروف کے اعتبار سے روزہ رکھا جائے۔ 4. ہمارے ہاں پاکستان میں یوم عرفہ کو سات یا آٹھ ذوالحجہ ہوتی ہے۔ کچھ مغربی ممالک ایسے بھی ہیں کہ وہاں یوم عرفہ کو ذوالحجہ کی دس تاریخ ہوتی ہے۔ اگر سعودیہ کے اعتبار
[1] صحیح مسلم:11562؛ سنن ابی داؤد: 2420؛ جامع ترمذی: 749؛ سنن ابن ماجہ: 1713