کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 27
کے روزے بھی افضل و مستحب ہیں)
حدیث ِعائشہ رضی اللہ عنہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عشرہ ذو الحجہ کے روزے نہیں رکھے، سے یہ مفہوم اخذ کیا جائے گا کہ (ہوسکتا ہے) کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی عارضے مرض یا سفر وغیرہ کی وجہ سے ان دنوں کے روزے نہ رکھے ہوں یا عائشہ رضی اللہ عنہا نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ان دنوں میں روزے سے نہ دیکھا ہو اوران کی نفی سے حقیقت میں روزوں کی نفی لازم نہیں آتی کیونکہ ان روزوں کے اثبات پر ابوداؤد اور سنن نسائی کی یہ روایت بھی دالّ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے نو روزے رکھا کرتے تھے۔ ‘‘[1]
کیا عرفہ کا روزہ مکہ مکرمہ کی تاریخ کے مطابق رکھا جائے؟
عرفہ کا روزہ سعودی تاریخ کے مطابق رکھا جائے یا ہر علاقے کے لوگ قمری تاریخ کے اعتبار سے نو ذوالحجہ کا روزہ رکھیں۔ موجودہ دور میں یہ ایک مصنوعی اشکال پیدا کرکے یوم عرفہ کی تعیین میں شکوک و شبہات پیدا کرنے کی کوشش کی جارہی ہے اوریوم عرفہ کی آڑ میں اس مقدس روزہ کو ایک پیچیدہ مسئلہ بنانے کی کوشش کی جارہی ہے۔
حالانکہ اس موقف کے قائل علماء رمضان کے روزوں ، دیگر نفلی روزوں اور شب ِقدر کی تعیین میں تو قمری تقسیم کو تسلیم کرتے ہیں لیکن یومِ عرفہ سے دھوکا کھاکر اس کو سعود ی تاریخ سے نتھی کرنے کی فضول کوشش کی جاتی ہے، حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ اس موقف کو تسلیم کرلیا جائے تو تمام اسلامی دنیا سعودی یومِ عرفہ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتی، کیونکہ مشرقی ممالک میں سحری سعودی وقت سے دو یا تین گھنٹے قبل شرو ع ہوتی ہے اور افطاری بھی ان سے پہلے ہوتی ہے۔ اسی مناسبت سے تو مشرقی لوگ سعودی تاریخ کے مطابق روزہ رکھ ہی نہیں سکتے اور بعض مغربی ممالک میں قمری تاریخ سعودی تاریخ سے آگے ہے۔ چنانچہ مکہ مکرمہ میں جب یوم عرفہ ہوتا ہے تو وہاں عیدالاضحیٰ منائی جارہی ہوتی ہے تو اس غیر منصفانہ تقسیم سے تو مغربی ممالک کے مسلمان یوم عرفہ کے روزہ کی فضیلت سے محروم رہیں گے کیونکہ عیدالاضحےٰ کے دن روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ اس اعتراض کا مزید تشفی بخش جواب آئندہ فتاویٰ میں ملاحظہ کریں:
[1] شرح النووی:8/72