کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 26
ذوالحجہ کے نو روزے رکھنامسنون عمل ہے!
ذوالحجہ کے ابتدائی نو دنوں کے روزے رکھنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور مستحب عمل ہے،لہٰذا ان دنوں کے روزوں کااہتمام مشروع ہے۔بعض اُمّہات المؤمنین سے مروی ہے:
أن النبی صلی اللہ علیہ وسلم کان یصوم تسع ذي الحجة ویَوم عاشوراء، وثلاثة أیام من کل شهر، أوّل اثنین من الشهر و الخمیس [1]
’’بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کے (پہلے) نو دن کا، دس محرم کا ، ہرمہینے تین دن اورمہینے کی پہلی سوموار اور جمعرات کا روزہ رکھا کرتے تھے۔‘‘
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اور ہنیدہ بن خالد صحابی اور ان کی زوجہ محترمہ صحابیہ ہیں، لہٰذا ان کا غیرمعروف ہونا قادح نہیں۔
ایک تعارض اوراس کا حل: مذکورہ بالا حدیث دلیل ہے کہ ذوالحجہ کے ابتدائی نو دنوں کے روزے رکھنا مسنون و مستحب عمل ہے۔ لیکن اس بیان کردہ حدیث کے معارض سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی یہ حدیث ہے:
ما رأیت رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم صائمًا في العشر قط [2]
’’میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ذوالحجہ کے دس دنوں میں کبھی بھی روزہ کی حالت میں نہیں دیکھا۔‘‘
اس تعارض کا حل امام نووی رحمہ اللہ یوں پیش کرتے ہیں:
’’علماء بیان کرتے ہیں کہ حدیثِ عائشہ رضی اللہ عنہا سے وہم پیدا ہوتا ہے کہ عشرہ ذو الحجہ کے روزے مکروہ ہیں، یہاں عشرہ ذوالحجہ سے مراد ذوالحجہ کے ابتدائی نو دن ہیں۔ یہ مفہوم کشید کرنے سے ان روزوں کی کراہت ثابت نہیں ہوتی بلکہ ان دنوں کے روزے بہت ہی مستحب ہیں۔ بالخصوص نو ذی الحجہ یعنی عرفہ کا روزہ تو خاص استحباب کا حامل ہے۔ اس کی فضیلت کے متعلق احادیث گزر چکی ہیں اور صحیح بخاری میں مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عشرہ ذی الحجہ کے مقابلے میں باقی ایام کی عبادات افضل نہیں۔‘‘ (یہ روایت دلیل ہے کہ دیگر عبادات کی طرح ان دنوں
[1] سنن ابی داؤد: 2437
[2] صحیح مسلم:1176