کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 25
رات بھر عبادت کیا کرتے تھے اوران راتوں میں شبِ قدر بھی۔چنانچہ جو شخص اس تفصیل کے بغیر جواب دے گا، اس کے لیے ممکن نہیں کہ وہ صحیح دلیل پیش کرسکے۔ ‘‘[1] عرفہ کے روزہ کی فضیلت عرفہ کا روزہ انتہائی فضیلت کا حامل ہے کہ اس دن کے روزہ سے دو سالوں ، ایک سال گزشتہ اور سالِ آئندہ کے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، لہٰذا اس دن کے روزہ کا اہتمام کرناانتہائی مستحب عمل ہے۔سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (( صیام یوم عرفة احتسب علىٰ الله أن یکفر السنة التي قبله والسنة التي بعده)) [2] ’’میں اللہ سے اُمید کرتا ہوں کہ عرفہ کے دن کا روزہ دو سال: ایک سال گزشتہ اور ایک آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔‘‘ علماے کرام بیان کرتے ہیں کہ عرفہ کا روزہ دو سال کےگناہوں کاکفارہ بنتا ہے ، سے مراد صغیرہ گناہ ہیں۔ اگر صغیرہ گناہ نہ ہوں تو کبائر میں تخفیف واقع ہوتی ہے اوراگرروزہ دار صغائر و کبائر سے پاک ہو تو اس مناسبت سے درجات بلند ہوتے ہیں۔ چنانچہ ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ شرح مشکوۃ المصابیح میں امام الحرمین کا قول بیان کرتے ہیں: ’’عرفہ کا روزہ صغیرہ گناہ مٹاتا ہے ۔ ‘‘ قاضی عیاض کہتے ہیں: ’’اہل السنۃ والجماعۃ بھی اسی موقف کے قائل ہیں۔ البتہ کبیرہ گناہ توبہ یا رحمتِ الٰہی ہی سےمٹتے ہیں۔پھر اگریہ اعتراض کیا جائے کہ عرفہ کاروزہ اگلے سال کے گناہوں کاکفارہ کیسے بنتا ہے، حالانکہ اس سال کے گناہ تو آدمی پر ہوتے ہی نہیں۔اس کا جواب یہ ہےکہ اللہ تعالیٰ اس روزہ دار کو آئندہ سال گناہوں سےمحفوظ رکھے گا اور ایک قول یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے رحمت اور ثواب سے اس قدر نوازے گاکہ یہ رحمت و ثواب گزشتہ و آئندہ سال کے گناہوں کا کفارہ بن جائے گا۔‘‘ [3]
[1] مجموع فتاویٰ ابن تیمیہ :25/287 [2] صحیح مسلم:11562؛ سنن ابی داؤد: 2420؛ جامع ترمذی: 749؛ سنن ابن ماجہ: 1713 [3] تحفۃ الاحوذی:3/377