کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 23
صیام کل یوم منها بصیام سنة وقیام کل لیلة منها بقیام لیلة القدر)) [1]
’’عشرہ ذو الحجہ سے بڑھ کر کوئی ایسے ایام نہیں جن میں عبادت اللہ تعالیٰ کو زیادہ محبوب ہو۔ ان میں ہر دن کا روزہ سال کے روزوں کے برابر اوران میں سے ہر رات کا قیام لیلۃ القدر کے قیام کے برابر ہے۔‘‘
یہ روایت ضعیف ہے کیونکہ اس کی سند میں مسعود بن واصل اور نہاس بن قہم ضعیف راوی ہیں۔
3. عن عائشة أن شابا کان صاحب سماع وکان إذا أهلّ هلال ذی الحجة أصبح صائمًا، فأرسل رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم فقال: «ما یحملك علىٰ صیام هذه الأیام؟» قال: بأبي وأمی یا رسول الله! إنها أیام المشاعر و أیام الحج عسی الله أن یشرکنی في دعائهم. فقال: «لك بکل یوم تصومه عدل مائة رقبة تعتقها، ومائة بدنة تهدیها إلىٰ بیته الله، ومائة فرس تحمل علیها في سبیل الله، فإذا کان یوم التروية فذلك عدل ألف رقبة، وألف بدنة وألف فرس تحمل علیها في سبیل الله، فإذا کان یوم عرفة فذلك عدل ألفي رقبة وألفي بدنة، وألفی فرس تحمل علیها في سبیل الله، وصیام سنتین سنة قبلها وسنتین بعدها» [2]
’’سیدہ عائشہ صدیقہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان موسیقی کا رسیا تھا لیکن جب ذوالحجہ کا چاندطلوع ہوتا تو وہ روزہ رکھناشروع کردیتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسےبلوایا اور پوچھا: ان دنوں کے روزوں پر تجھے کون سی چیز آمادہ کرتی ہے؟ اس نے عرض کیا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں۔ یہ مناسکِ حج کے دن ہیں۔ ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے ان(حجاج) کی دعا میں شامل کرلے۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تیرےلیے ہردن کے بدلے جو تو روزہ رکھتا ہے۔ سو گردن آزاد کرنے، سو اونٹ قربانی جو تو بیت اللہ کی طرف قربانی کے لیےبھیجےاور سو گھوڑے جو تو
[1] جامع ترمذی:758؛ سنن ابن ماجہ: 1728، شعب الایمان للبیہقی: 3757، مسند ابی عوانہ 3021؛ السلسلة الضعیفة: 5142/م
[2] الکامل فی ضعفاء الرجال لابن عدی:6/2153، کتاب الموضوعات لابن الجوزی:1136، میزان الاعتدال: 3/669) يہ حدیث موضوع ہے۔