کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 21
والے ہیں۔ تین مہینے ذوالقعدہ، ذوالحجہ اور محرم لگاتار ہیں اور چوتھا مہینہ رجب جو جمادی(الآخرۃ) اور شعبان کے درمیان ہے۔‘‘ 2. حج کامہینہ ماہ ذوالحجہ کو اس اعتبار سےبھی فوقیت حاصل ہے کہ یہ حج کامہینہ ہے اورمسلمانوں کا مقدس فریضہ حج اس ماہ ادا کیا جاتاہے اور دنیا بھر کے مسلمان حج کی ادائیگی کے لیے مکہ مکرمہ کا رخ کرتے ہیں۔ 3.ذوالحجہ کے ابتدائی دس دن ذوالحجہ کے ابتدائی دس ایام خاص اہمیت کے حامل ہیں اوران دنوں میں فرائض و نوافل اورنیک اعمال کا اجروثواب باقی ایام میں کی جانے والی عبادات سے افضل و برتر ہے۔ دلائل حسبِ ذیل ہیں: 1. فرمان باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الْفَجْرِۙ۰۰۱ وَ لَيَالٍ عَشْرٍۙ۰۰۲﴾ [1] ’’فجر کی قسم اور دس راتوں کی قسم‘‘ اکثر مفسرین کے نزدیک یہاں دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی ابتدائی دس راتیں ہیں جن کی مزید فضیلت اس حدیث میں ہے۔سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ((مَا الْعَمَلُ فِي أَيَّامٍ أَفْضَلَ مِنْهَا فِي هَذِهِ. قَالُوا: وََلا الْجِهَادُ، قَالَ: وََلا الْجِهَادُ، إَِلا رَجُلٌ خَرَجَ يُخَاطِرُ بِنَفْسِهِ وَمَالِهِ فَلَمْ يَرْجِعْ بِشَيْءٍ )) [2] ’’ ذو الحجہ کے دس دنوں سے افضل کوئی عمل نہیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: کیا جہاد فی سبیل اللہ بھی نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جہاد بھی نہیں مگر وہ شخص جو اس حال میں نکلا کہ اس نے اپنی جان اورمال کوخطرہ میں ڈالا پھر کچھ بھی ساتھ لے کرنہ پلٹا۔‘‘ 1.معلوم ہوا کہ عشرہ ذو الحجہ میں کئے گئے اعمال کاثواب دیگر دنوں کے اعمال سے زیادہ ہے ۔ لہٰذا ان ایام میں عبادات، نوافل، نفلی روزوں، اذکار کازیادہ اہتمام کرناچاہیے۔
[1] الفجر:19/201 [2] صحیح بخاری:969