کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 2
کتاب: محدث شمارہ 351
مصنف: حافظ عبد الرحمن مدنی
پبلیشر: مجلس التحقیق الاسلامی لاہور
ترجمہ:
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
فکر ونظر
مسئلۂ توہین رسالت اور قانون کو ہاتھ میں لینا؟
پاکستان میں اس وقت توہین رسالت کا ایک اہم وقوعہ درپیش ہے جس میں ملوث ہونے کی بنا پر پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کوہلاک کردیا گیا ۔پنجاب کی دہشت گردی کی عدالت نے قتل کرنے والے ممتاز قادری کو دوبار موت کی سزا سنا ئی۔ سرزمین پاکستان کے بعض مشہور تاریخی واقعات مثلاً لاہور میں غازی علم دین شہید اور کراچی میں غازی عبد القیوم کے اقدام قتل کے بعد تحفظ ِناموسِ رسالت کے سلسلے کا یہ تیسرا مشہور مقدمہ ہے۔
پاکستان کے دینی اُفق پر اس وقت ممتاز قادری کاکیس اہم حیثیت اختیار کرتا جارہاہے۔ 4جنوری 2011ء کی سہ پہر ممتاز قادری نے پنجاب کے گورنر سلمان تاثیر کو اسلام آباد میں ان کی حفاظت پر مامور ہونے کے دوران گولیوں کا برسٹ مار کر ہلاک کردیا۔گرفتاری کے بعد ممتاز قادری نے گورنر کے قتل کا برملا اعتراف کیا اور ابتدائی تفتیش میں یہ بیان دیا کہ
’’گورنر پنجاب نے قانون توہین رسالت کو ’ کالا قانون‘قرار دیا تھا، ا س لیے گستاخِ رسول کی سزا موت ہے۔سلمان تاثیر گستاخِ رسول تھا، اس نے چونکہ قانون توہین رسالت کے تحت عدالت سےسزا پانے والی ملعونہ آسیہ مسیح کوبچانے کا عندیہ دے کر خود کو گستاخِ رسول ثابت کردیا تھا، اس پر میں نے اپنا فرض پورا کردیا۔ ‘‘
دہشت گردی کی عدالت میں اُن پر مقدمہ چلایا گیا اور عدالت میں یہ بیان دیا:
’’اپنے محلے مسلم ٹاؤن میں ہونے والی تحفظ ِناموسِ رسالت کانفرنس صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہوکر گورنر سلمان تاثیر کو واجب القتل مانتے ہوئے قتل کا ارادہ کیا تھا اور قتل سے قبل یہ لکھ کر اپنی جیب میں چٹ ڈال لی: گستاخِ رسول کی سزا موت ہے، موت ایک دن آنی ہے تو پھر ناموسِ رسالت کے تحفظ پر جان قربان ہوجائے تو کیا کہنا۔‘‘ [1]
ممتاز قادری کی سزا کا معمہ اس وقت پاکستان کے مقتدر طبقہ اور عدلیہ کے لئے گلے کی
[1] روزنامہ نوائے وقت: 2/اکتوبر 2011ء