کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 18
وذیوع اور شاتم سے ہمدردی اور معاونت اس کے جرم میں ملوث اور شریک ہونے کے مترادف ہے، جس کے بعد تعاون کرنے والا کسی طور کلی معصوم قرار نہیں پاسکتا۔ 5. لاہور وکراچی کے واقعات سے ثابت ہوتا ہے کہ شاتمانِ رسول کو کیفرکردار تک پہنچانے میں مسلمانوں نے اس وقت قانون کو ہاتھ میں لیا جب قانون میں یہ قوت نہیں تھی کہ وہ ایسے مجرموں کو سزا دے سکے۔ بلکہ اس وقت تو ایسا قانون ہی موجود نہ تھا جو پیغمبروں کے تقدس کی پامالی کو جرم قرار دے۔ یہی وجہ ہے کہ غازی علم دین جانے سے قبل اپنے والد سے جو مکالمہ کرکے گیا تھا،اس میں اسے یہ یقین تھا کہ نہ تو قانون کا درکھٹکھٹانے سے راج پال کو سزا ملے گی اورنہ ہی اسے قتل کرنے پر علم دین کو کوئی رعایت ملے گی۔ یہی صورتحال غازی عبد القیوم کی بھی تھی۔ اسی بنا پر علامہ اقبال نے اپنے اشعار میں ان شہیدانِ اسلام کی دیت کا مطالبہ کرنے سے بھی انکار کردیا۔ سلمان رشدی کے بارے میں عام فتواے قتل کے پس پردہ بھی یہی بات موجود ہے کہ اُمت اسلامیہ کے سامنے ایسا امکان نہیں تھاکہ جس کی بنا پر کسی عالمی عدالت میں وہ اس بدبخت کو اس کی سزا دلوانے میں کامیاب ہوسکیں کیونکہ موجودہ مادہ پرست عالمی ضمیر، اپنے حکمرانوں کے تقدس کو تو قانونی تحفظ دیتا ہے، لیکن دین ومذہب کے قائدین اور پیغمبران کو یہ تقدس دینے کو تیار نہیں ہے۔ اور ڈھٹائی سے اسے آزادئ اظہار قرار دے کر اس کی تائید کرتا ہے۔ جہاں تک احادیث ِرسول کی بات ہے توان میں بعض واقعات ایسے ہیں جہاں آغازِ اسلام میں مسلمانوں کو یہ خدشہ لاحق ہوسکتا تھا کہ اگر وہ ان مجرموں کی عام سزاے قتل کا اعلان کریں گے تو یہ کفار کے ساتھ مل کر اسلام مخالف سازشوں میں شریک ہوں گے۔ اس لئے فتح مکہ سے قبل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی گستاخ رسول کی کھلم کھلا سزا کا اعلان نہیں کیا۔اس بنا پر یہ ممکن ہے کہ بچوں کی ماں باندی، عمیر بن اُمیہ کی مشرکہ بہن، عمیر بن عدی کے قبیلہ کی کافر فرد عصما اور یہودیہ وغیرہ کے سلسلے میں قانون کو اس لئے ہاتھ میں لیا گیا ہو جبکہ دستیاب حالات وواقعات کی رو سے ان شاتمان کی قانونی گرفت کے مکمل امکانات موجود[1] نہ ہوں۔تاہم بعض واقعات میں
[1] یہ صورتِ حال فی زمانہ ایسی نام نہاد اسلامی ریاست کے بارے میں بھی پیدا ہوسکتی ہے جو شاتمان کی ازخود گرفت کا شرعی فرض پورا نہ کرتی ہو او ران میں عملاً شرعی سزائیں معطل ہوں۔