کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 17
واجب نہیں بلکہ یہ مسلم حکومت کا ہی فرض ہے۔کیونکہ اگریہ ہر مسلمان پر واجب ہوتا تو پھر صحابہ کرام کو اس میں پہل کرنی چاہئے تھی اور سزا نہ دینے والے صحابہ کو گناہ گار ٹھہرنا چاہئے تھا حالانکہ ایسا نہیں ہے۔تاہم اگر کوئی مسلمان شاتم رسول کو بہ تقاضائے ایمانی قتل کردے تو اُس کی قانونی باز پرس کی جائے گی اور بعض مخصوص صورتوں میں اس کا یہ اقدام قابل تعریف بھی ہوسکتا ہے جب کہ مجرم کی گستاخی حد سے بڑھ چکی ہو اور مسلمان اس کی گرفت کرنے پر قادر نہ ہوں مثال کے طور پر سلمان رشدی کا قاتل آج اُمت ِاسلامیہ کا محسن قرار پائے گا۔ اُصول یہی ہے کہ ہرجرم کا معاملہ عدالت میں پیش کیا جائے اور شرعی عدالت سے ہی فیصلہ لیا جائے اور توہین رسالت کا مسئلہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں تاہم اگر کوئی بہ تقاضائے ایمانی خود اقدام کربیٹھے تو سنت ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ یہ ہے کہ اس کے اقدام کا عدالت میں جائزہ لے کر عدل وانصاف کے تقاضے پورے کئے جائیں، جیسا کہ سابقہ تمام حدیثی اور تاریخی واقعات وقوعہ قتل کے بعد کے ہیں اور ان سے اسی قدر ثابت ہوتا ہےاور کسی مقام پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُصولاً شاتم رسول کو از خود سزا دے لینے کی کوئی تلقین نہیں کی۔ نہ ہی محض یہ دعویٰ کردینے سے کوئی شخص قانون سے بالاتر ہوجاتا ہے اور نہ ہی محض قانون کو ہاتھ میں لینے سے قتل کرنے والا لازماً موت کی سزا پائے گا۔ بالخصوص وہ جرائم جو مقتول ومتاثر فردکے کسی جرم کے تناظر میں واقع ہوتے ہیں، شریعت ِاسلامیہ کا موقف اُن میں یہ ہے کہ اُنہیں پہلے جرم کے تناظر میں دیکھ کر حقیقی عدل کیا جائے۔ غیرت کے نام پر جرائم کی طرح ، شتم رسول کے جرم کے نتیجے میں جوابی اقدام کو پہلے جرم کے تناظر میں دیکھ کر ہی حقیقی فیصلہ کیا جانا چاہئے۔ جیساکہ اس قانونی وشرعی نکتہ کی تفصیل آگے آرہی ہے۔ 4. غازی علم دین شہید کے واقعے سے پتہ چلتا ہے کہ اُنہوں نے ’رنگیلا رسول‘ نامی دل آزار کتاب کے جس ہندو ناشر راج پال کو موت کے گھاٹ اُتارا تھا، وہ خود توہین رسالت کا مرتکب نہیں تھا، بلکہ اصل توہین رسالت کا ارتکاب تو اس کتاب کے مصنف ایک ہندو سرکاری پروفیسرنے کیا تھا۔گویا غازی علم دین نے جرم توہین رسالت میں معاونت کرنے والے ایک ہندو ناشر کو، جس نے اس جرم کی تائید کرکے اسے معاشرے میں پھیلایا تھا، قتل کردیا تھا تاکہ اہانتِ رسول کے مرتکب کی کسی بدبخت کو تائید کی بھی ہمت نہ ہو اور غازی کے اس اقدام کو اسلامیانِ ہند نے قبولیت وپذیرائی بخش کر ان کی بھرپورتائید کی تھی، جیسا کہ تفصیل گزر چکی ہے۔ گویا توہین رسالت کے جرم کا انتشار