کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 16
1.مذکورہ بالا تمام واقعات ایسے ہیں جن میں اہانتِ رسول واضح طورپر ثابت شدہ تھی اور توہین رسالت کے جرم کے صدور میں کوئی دوسری رائے نہ تھی۔ حتیٰ کہ بعض مقامات پر اگر کسی صحابی رضی اللہ عنہ نے کسی شاتم رسول کو خود قتل کیا یعنی ثبوتِ جرم کے بظاہر قانونی تقاضے پورے نہ تھے تو اس بارے میں علمائے اسلام کا کہنا ہے کہ یا تو اس گستاخی کی اللہ تعالیٰ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وحی سے تصدیق کردی تھی، جیسا کہ عمیر رضی اللہ عنہ بن عدی اور عمر رضی اللہ عنہ فاروق کے واقعے میں اس کی صراحت بھی موجود ہے، یا دیگر گواہیوں سے جرم اہانت کا وقوع یقینی ہوچکا تھا مثلاً کسی بدبخت کی گستاخیاں، اشعار اور رویے زبان زدِ عام تھے۔ جہاں تک غازی علم دین ،غازی عبد القیوم شہید اور سلمان رشد ی کا معاملہ ہے تو ایسی کتب منصۂ شہود پرموجود تھیں جن میں شتم رسالت کا ارتکاب کیا گیا تھا۔ مذکورہ بالا تمام واقعات میں کسی مقام پر اہانت ِرسول کے ضمن میں کسی دوسرےامکان کا تذکرہ بھی کتب ِ حدیث وتاریخ میں نہیں ملتا۔ اس بنا پر یہ امر واضح رہنا چاہئے کہ اگر صریح اور مسلمہ توہین رسالت موجود ہو اور اس کےثبوت میں کوئی کلام نہ ہو تو تب ہی ان واقعات سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔آج بعض لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے بارے میں بعض نظری اختلافات کو ناموسِ رسالت کا مسئلہ بنا کر اگر اِن سے استدلال کرنا شروع کردیں تو یہ رویہ قانون وشرع کی نظر میں کسی رعایت کا مستحق نہیں ہوگا جیسا کہ عوام میں یہ ریت پختہ ہوتی جارہی ہے اور اس کی روک تھام کی اشد ضرورت ہے۔
2. احادیث میں موجود واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ توہین رسالت کا مقدمہ ہو یا کوئی اور تنازعہ، یہ اُمور اسلامی عدالت سے بالا تر نہیں کہ جو شخص بھی چاہے تو توہین رسالت کا دعویٰ کرکےقانون سے بالاتر ہوکر رعایت کا مطالبہ کرسکتا ہے۔ بلکہ ان احادیث سے سنتِ نبویہ دراصل یہ معلوم ہوتی ہے کہ ایسے واقعات ہونے پر شرعی عدالت میں ان کی باز پرس کی جائے، امر واقعہ کا پوری طرح جائزہ لیا جائے اور شریعت کے تقاضوں کو پورا کیا جائے۔ اگر امر واقعہ میں اہانتِ رسول کا ارتکاب ہوا ہے تو ایسے مجرم کو سزا سے معافی دی جائے اور اگر درحقیقت ایسا نہیں ہوا تو پھر ملزم پر شرع وقانون کے تقاضے پورے کئے جائیں تاکہ لوگوں کے جان ومال محفوظ رہیں۔ بالفرض کسی نے توہین رسالت کی آڑ میں اپنا غصہ وانتقام پورا کیا ہےتو اس کو جواباً قصاص میں قتل کیا جائے۔
3. احادیثِ نبویہ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ شتم رسول کے مرتکب کو سزا دینا ہر مسلمان پر