کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 15
ملک سراپا احتجا ج بنا ہوا ہے۔ اہل کراچی کا یہ پہلا ایمانی مظاہر ہ نہیں۔ غازی کی حمایت میں نکلنے والے جلوس پر برطانوی پولیس نے فائرنگ کی، کئی زخمی اور شہید ہوئے لیکن اہل کراچی ناموسِ رسالت کے محافظ کی حمایت سے باز نہ آئے۔ کراچی کے لوگ لاہور علامہ اقبال کی خدمت میں حاضر ہوئے او رگذارش کی کہ ’’آپ وائسراے سے مطالبہ کریں ،قانون سازی ہونی چاہئے، مسلمان اپنے آپ کو سنبھال نہیں پا رہے ، ہمارے جذبات کو پامال کیا جارہا ہے۔ ہمارے نبی کی ناموس پرحملے ہورہے ہیں اور ہم قانون کو ہاتھ میں لینے پر مجبور ہیں۔‘‘ علامہ نے ایمان افروز جواب دیا: ’’کیا غازی عبد القیوم ڈگمگا گیا ہے،اُس کے قدم لڑکھڑا گئے ہیں؟ اس کو بتاؤ کہ میں جنت کو ا س سے چند لمحوں کی مسافت پر دیکھ رہا ہوں۔ ‘‘ کراچی کے لوگ آخر انسان تھے، اقبال کو کہنے لگے کہ مسلمانوں کے جذبوں کودوبارہ نہ آزمائیے، علم دین کی روایت دوبارہ دہرائی جا ئے گی، وائسراے کو درخواست کریں کہ ناموس رسالت کے تحفظ کے لئے عملی اقدام کرتے ہوئے قانون سازی کی جائے۔ اقبال نے جلال میں جو جوا ب دیا وہ آج بھی ضربِِ کلیم میں ’لاہور وکراچی‘ کے عنوان سے ایک رباعی کی صورت موجود ہے:
نظر اللہ پہ رکھتا ہے مسلمان غیور
موت کیا شے ہے، فقط عالم معنی کا سفر
ان شہیدوں کی دیت اہل کلیسا سے نہ مانگ!
قدر وقیمت میں ہے خون جن کاحرم سے بڑھ کر
ہماری عدلیہ کو ممتاز قادری کے مقدمہ کا فیصلہ کرتے ہوئے، مسلمانان برصغیر کے جذبہ ایمانی، غیرتِ ملی اور بانیانِ پاکستان کی اس تاریخ ساز رہنمائی کو بھی پیش نظر رکھنا چاہئے۔
علامہ اقبال کے جذبہ ایمانی اور حمیت وغیرت نے کفار سے قانون کو ہاتھ میں لینے کے اس جرم میں رعایت کے مطالبہ کو درخور اعتنا نہ جانا اور کراچی کا غازی عبد القیوم بھی پھانسی کے تختے پرجھول گیا۔ شمع رسالت کے پروانوں نے ناموس کے تحفظ کی خاطر اپنی جانوں کی قربانی دے دی، لیکن شاتمانِ رسول سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا۔
چند قابل توجہ اُمور
ممتاز قادری کے اقدامِ قتل اور گورنر سلمان تاثیر کو ہلاک کر دینے کے موضوع پر براہ راست استدلال اور بحث وتجزیہ سے قبل اوپر مذکورہ احادیثِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ کے واقعات اور بانیانِ پاکستان کے رجحانات کے سلسلے میں چند باتیں ضرور ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئیں: