کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 14
قیادت جس میں محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خاں وغیرہ کے نام نمایاں ہیں، نے حکومت وقت سے مطالبہ کیا کہ غازی کی میت ہمارے حوالے کی جائے۔ جیل کے احاطے میں غازی کی تدفین کے چند ہی دنوں کے اندر اندر لاہور میں فضا اس قدر پرجوش ہوچکی تھی کہ صرف 13 دنوں کے بعد غازی کے جسد ِخاکی کو مسلمانوں کے حوالے کردیا گیا، علامہ اقبال کو علم دین کا جنازہ پڑھانے کی دعوت دی گئی، اُنہوں نے دمہ کے مرض کے باوجود غازی کی قبر میں اتار کر اس کی چٹائی پر چند لمحے لیٹنے کو سعادت جانا۔ مولانا ظفر علی خاں نے قبر میں اُتر کر ان کےآخری دیدار کی سعادت حاصل کی اور اس موقع پر اقبال نے یہ تاریخ ساز جملہ کہا کہ ’’ترکھانوں کا بیٹا، پڑھے لکھوں پر بازی لے گیا۔‘‘ جس کا ایک مطلب یہ تھا کہ اگر اُنہیں موقع ملتا تو وہ خود بھی یہی اقدام کرگزرتے۔یہ واقعہ محض ایک مقدمہ قتل اور قانون کو ہاتھ میں لینے کی سزا کا نہیں بلکہ اس کے ذریعے تحریک پاکستان کے اس رخ کا 18 برس قبل ہی تعین ہوگیا جس کیلئے پاکستان کی دھرتی حاصل کی گئی۔ متفقہ مسلم قیادت کا جوش ولولہ، ظلم وستم کے اس نظام کے خلاف تھا جواُن کے نبی کی ناموس کی حفاظت کرنے کا حق بھی مسلمانوں کو نہیں دیتی ۔ آج افسوس کہ کلمہ طیبہ اور ناموسِ رسالت کے نام پر حاصل کردہ پاکستان میں علامہ اقبال اور قائد کے خودساختہ افکار کا حوالہ دے کر لادینیت کی راہ ہموار کی جاتی ہے جبکہ ان حضرات کا توہین رسالت کے ضمن میں قانون کو ہاتھ میں لینے پر موقف بڑا ہی واضح تھا۔ یہ اکیلا واقعہ نہیں، اہالیان ِکراچی بھی ناموس رسالت کے اس تحفظ میں پیچھے نہیں رہے۔ غازی علم دین کی شہادت کے صرف تین سال بعد کراچی میں نتھورام نے ’ہسٹری آف اسلام‘ میں شانِ نبوت میں دریدہ دہنی کی۔ قانونِ وقت مسلمانوں کے جذبات کو تحفظ دینے کی صلاحیت سے محروم تھا، ہزارہ کے نوجوان عبدالقیوم نے ناموس رسالت کے لئے جان ہتھیلی پر رکھ دی اور عین کمرۂ عدالت میں نتھو رام کو جج کے سامنے ذبح کردیا۔ ایک بار پھر عدالت میں قانون کو ہاتھ میں لے لیا گیا۔ انگریز جج دہشت زدہ ہوکربولا: تم نے آخر کار اسے قتل کردیا۔ غازی عبد القیوم نے ایمان افروز جواب دیا کہ تمہارے سامنے موجود وائسرائے کی تصویر کی میں توہین کروں تو تم کیا رد عمل پیش کروگے، وہ تو پھر کائنات کی اشرف ومقدس ترین ہستی صلی اللہ علیہ وسلم کا معاملہ ہے جن پر ہمارے ایمان واعتقاد کا پوراسلسلہ اُستوار ہے۔غازی عبد القیوم کی حمایت میں ایک عظیم الشان جلوس نکلا جس نے حکمرانوں کے ایوانوں میں زلزلہ بپا کردیا۔ آج چشم فلک نےدیکھا کہ ایک بارپھر ممتاز قادری کے سزا پر کراچی اور پورا