کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 13
جس کی صداقت کے دل سے قائل ہوتے۔ ماضی میں لاہور میں غازی علم دین شہید کا مقدمہ ہو یا کراچی میں غازی عبد القیوم کا ایمان افروز اقدام۔ ان دونوں واقعات کا گہرائی سے مطالعہ کرنے والا، آج کے وقوعہ قتل اور اُن میں مماثلت کے بہت سے پہلو تلاش کرسکتا ہے۔ 80 برس قبل لاہور میں غازی علم دین نے جب شانِ رسالت میں گستاخی ہوتے دیکھی اور یہ جان لیا کہ اس دور کا قانون اس ظلم کا راستہ روکنے کی بجائے اس کو تحفظ ہی دے گا، تو اس نے قانون کو ہاتھ میں لے کر راج پال کو خود موت کے گھاٹ اُتار دیا۔جانے سے قبل اپنے باپ سے ہونے والے مکالمہ کے نتیجے میں اس پر بخوبی یہ واضح ہوچکا تھا کہ موجودہ قانون کے تحت اس کو اس قتل کی سزا میں کسی رعایت کی توقع نہیں رکھنی چاہئے۔ لیکن غازی علم الدین کے اس اقدام قتل اور قانون کو ہاتھ میں لینے کو اسلامیانِ برصغیر نے جو پذیرائی بخشی، وہ بے مثال ہے۔ مذہبی طبقے سے بڑھ کر اس دور کے مغربی تعلیم یافتہ طبقہ نے بھی اس پر بے پناہ داد وتحسین دی،اس کا اندازہ اس بات سے ہوتا ہے کہ غازی علم دین کے قانون ہاتھ میں لینے پر اُسے جوابی سزا سے بچانے کے لئے اسلامیانِ برصغیر کے قائد علامہ اقبال پوری طرح متحرک ہوئے اور اُنہوں نے قائد اعظم محمد علی جناح کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات کو بروے کار لاتے ہوئے اُنہیں اس مقدمہ کی پیروی کرنے کی درخواست کی۔ اپنے وقت کے سب سے نامور مسلمان وکیل محمد علی جناح نے لاہور میں جس واحد مقدمے میں اپنی وکالت کے جوہر دکھائے، اور بطورِ خاص بمبئی سے یہاں تشریف لائے، وہ یہی غازی علم دین کا مقدمہ ہے۔ اس مقدمہ میں اُنہوں نے لاہور ہائیکورٹ کے دو انگریز جج صاحبان کے سامنے یہ موقف اختیار کیا کہ یہ قتل مذہبی جذبات کی توہین کے نتیجے میں واقع ہوا، اور اس قانون کو ہاتھ میں لینے کی اساس فوری اشتعال ہے جس کو دنیا بھر کے مجموعہ ہائے تعزیرات کے ساتھ ساتھ اس وقت کا رائج العمل انڈین پینل کوڈ بھی تحفظ دیتا ہے۔ آج ممتاز قادری کے اقدامِ قتل کے تناظر میں وقت کا مؤرخ یہ دیکھ رہا ہے کہ پاکستان کےوکلا قائد اعظم کے کردارِ وکالت کو اختیار کرتے ہیں، اُن کے موقف کے حامی ہیں یا انگریز حکومت کے اٹارنی کے دلائل کی سمت اپنا پلڑا جھکاتے ہیں۔ غازی علم دین کو ممتاز قادری کی طرح قانون کو ہاتھ میں لینے کی سزا تو ہوگئی، لیکن اس سے اسلامیانِ برصغیر کا جوش وخروش شعلہ جوالا کا روپ دھار گیا۔ اور اس وقت کی تمام مسلم