کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 12
اس فرمانِ الٰہی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلوں کو بنیادی حیثیت قرار دینے کو شرطِ ایمان قرار دیا گیا ہے بلکہ اس پر تین بار تاکیدی الفاظ ایزاد کئے گئے ہیں، جس کا مقصود مسلمانوں کو پوری طرح متوجہ کرنا اور اُنہیں مکمل باخبر کرنا ہے۔
اُمت ِمسلمہ میں اہل سنت کا موقف تو مذکورہ بالا احادیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ کی بنا پر واضح ہی ہے ، جبکہ اہل تشیع کے امام آیتُ اللہ خمینی نےماضی قریب میں سلمان رشد ی کے بارے میں مشہور فتویٰ دیا تھا کہ جو بھی مسلمان اُس کو قتل کرسکتا ہے تو اس کو ایسا کرنا چاہئے۔ اس فتویٰ میں بھی اُنہوں نے قانون کو ہاتھ میں لینے کی پروا نہ کرتے ہوئے شاتم رسول کو سزا دینے کی تلقین کی۔ ان تصریحات کے بعد اُمت ِاسلامیہ کا متفقہ موقف بالکل واضح ہوجاتا ہے۔
قانون کو ہاتھ میں لینے پر بانیانِ پاکستان کا طرزِ عمل
یوں تو احادیث ِنبویہ صلی اللہ علیہ وسلم کی واضح دلالت کے بعد کسی مسلمان کے لئے اس امر کی ضرورت باقی نہیں رہ جاتی کہ دیگر مسلمان رہنما اس بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں، تاہم پاکستانی معاشرے میں جس طرح اقبال وقائد کا نام لے کر اسلام سے انحراف کی راہیں تلاش کی جاتی اور اُنہیں روشن خیال اسلام کا علم بردار بتا کر ، اس کے پردے میں من مانی کی جاتی ہے، اس بنا پر اس حساس مسئلے میں ان کی شہادت اور رائے کی بھی اہمیت ہے۔یہ بھی یاد رہے کہ ڈاکٹر محمد اقبال اور محمد علی جناح دونوں جدید قانون کے مغرب سے تعلیم یافتہ اور بیرسٹر ی کے سند یافتہ تھے، گویا قانون کے تقاضوں کو بخوبی جانتے اور سمجھتے بوجھتے تھے۔
ان کے موقف کو جاننے کے لئے ماضی قریب سے غازی علم الدین شہید اور غازی عبد القیوم کے واقعات پر قانون کو ہاتھ میں لینے سے استدلال کیا جاسکتا ہے۔ یہ دونوں واقعات پاکستان کے دو مرکزی شہروں لاہور اور کراچی میں چند سالوں کے وقفے سے پیش آئے اور قیام پاکستان سے قبل ان شہروں کے باسیوں نے بھی اپنے موقف کو واضح کردیا۔خصوصاً ہر دوکیسوں میں علامہ اقبال رحمہ اللہ نے قانون کو ہاتھ میں لینے والوں کی تائید کی تھی اور اوّل الذکر میں تو باقاعدہ محمد علی جناح کو بھی غازی علم دین کی وکالت کے لئے دعوت دی تھی اور جناح نے غازی شہید کی وکالت بھی کی۔ معلوم ہوا کہ ان دونوں واقعات میں یہ قائدین اس حساس مسئلہ پر قانون کو ہاتھ میں لینے کی گنجائش کا تصور رکھتے تھے ۔ یاد رہے کہ دونوں رہنما قانون کے پیشہ سے تعلق رکھتے تھے اور اخلاق کے اس درجہ پر تھے کہ اسی معاملہ کی وکالت کرتے،