کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 11
جائے گا۔ جیساکہ اس فرمانِ نبو ی میں ہے: يَقُولُ صلی اللہ علیہ وسلم (( مَنْ رَأٰى مِنْكُمْ مُنْكَرًا فَلْيُغَيِّرْهُ بِيَدِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِلِسَانِهِ فَإِنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَبِقَلْبِهِ وَذَلِكَ أَضْعَفُ الْإِيمَانِ)) [1] ’’تم میں جو کوئی برا کام ہوتا دیکھے تو اس کو اپنے ہاتھ سے روبہ عمل نہ ہونے دے۔ اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے اس برے کام کو روکے۔ اگر اس کی قوت بھی نہ ہو تو کم ازکم دل سے برا جانے۔ اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔‘‘ اس حدیث سے یوں استدلال کیا جاتاہے کہ مغربی قانون کی رو سے جرم کے انسداد کی ذمہ داری صرف پولیس پر عائدہوتی ہے، جبکہ شریعت ِاسلامیہ میں برائی کاخاتمہ ہر مسلمان کی ذمہ داری قرار دیا گیا ہے۔ فرمان نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کہ ’’ہرشخص اسلام میں ذمہ دار ہے اور اس سے اس کی ذمہ داری کی بابت محشر میں پوچھا جائے گا۔‘‘[2]اس بنا پر توہین رسالت جو ایک سنگین جرم ہے، کے ارتکاب کے موقعہ پر اختیار وقوت رکھنے والے مسلمان کو چاہئے کہ اس جرم کے مرتکب کو بزورِ بازور روک کر آئندہ سے ایسے جرم کی بیخ کنی کردے۔ کسی مسلمان کے لئے سب سے بڑی شہادت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان اور فیصلے کی ہے اور اسے تسلیم نہ کرنے کی کسی مسلمان کے لئے کوئی گنجائش نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ نے جس طرح دنیا جہاں سے بڑھ کر رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کو ایمان کا لازمی تقاضا قرار دیا ہے، اسی طرح اطاعتِ رسول سے بھی ایمان کو مشروط ٹھہرایا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد ہے: ﴿فَلَا وَ رَبِّكَ لَا يُؤْمِنُوْنَ حَتّٰى يُحَكِّمُوْكَ فِيْمَا شَجَرَ بَيْنَهُمْ ثُمَّ لَا يَجِدُوْا فِيْۤ اَنْفُسِهِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَيْتَ وَ يُسَلِّمُوْا تَسْلِيْمًا﴾ [3] ’’میرے رسول! تیرے ربّ کی قسم،یہ لوگ کبھی مؤمن نہیں ہوسکتے جب تک کہ آپ سے اپنے جھگڑوں میں فیصلہ نہ کروائیں، پھر اس کےبعد ان کے دلوں میں آپ کے فیصلے سے متعلق معمولی سی خلش بھی باقی نہ رہے اور اس کو دل وجان سے بسر وچشم تسلیم کریں۔‘‘
[1] صحیح مسلم: رقم 70 [2] صحیح بخاری: رقم 844 [3] سورۃ النساء: 65