کتاب: محدث شمارہ 351 - صفحہ 10
أَصْحَابِهِ فَقَالَ أَمَا كَانَ فِيكُمْ رَجُلٌ رَشِيدٌ يَقُومُ إِلَى هَذَا حَيْثُ رَآنِي كَفَفْتُ يَدِي عَنْ بَيْعَتِهِ فَيَقْتُلُهُ فَقَالُوا وَمَا يُدْرِينَا يَا رَسُولَ اللهِ مَا فِي نَفْسِكَ هَلَّا أَوْمَأْتَ إِلَيْنَا بِعَيْنِكَ قَالَ إِنَّهُ لَا يَنْبَغِي لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ خَائِنَةُ أَعْيُنٍ [1]
’’نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار اس کی جانب دیکھا، ہر بار آپ بیعت کا انکار کرتے رہے۔ آخر کار تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: تم میں کوئی دانا آدمی نہیں تھا ؟ جو عبد اللہ کو قتل کردیتا، جب وہ مجھے دیکھ رہا تھا کہ میں نے اس کی بیعت کرنے سے اپنے ہاتھ کو روک رکھا ہے۔ صحابہ نے جواب دیا کہ یارسول اللہ ! ہمیں پتہ نہ چل سکا کہ آپ کے جی میں کیا ہے؟آپ ہمیں اپنی آنکھ سے ہی اشارہ فرما دیتے۔تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: کسی نبی کو یہ لائق نہیں کہ وہ کن اَنکھیوں سے اشارے کرے۔‘‘
اس حدیث سے استدلال یوں ہے کہ اوّل تو فتح مکہ کے روز جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے تمام دیرینہ دشمنوں کو عام معافی دے دی لیکن اس کے باوجود اس امن کے دن اور امن کے مرکز بیت اللہ الحرام میں بھی گستاخانِ رسول کو معافی نہیں دی گئی۔ مزید برآں مذکورہ بالا حدیث میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شاتم رسول کو ازخود قتل نہ کرنے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے ناراضگی کا اظہار کیا اور اُنہیں تنبیہ فرمائی۔ معلوم ہوا کہ اُنہیں قانون کو ہاتھ میں لے کر قتل کردینا چاہئے تھا۔
الغرض ایک واقعہ میں زبانِ رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے، ایک واقعہ میں جبریلؑ امین کی زبانی اور ایک واقعہ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ فاروق نے شاتم رسول کو کیفر کردار پر پہنچانے کی تعریف کی ہے۔اور اس آخری واقعہ میں ایسا نہ کرنے والوں پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اظہارِ ناراضگی فرمایا ہے۔ دورِ نبوی یا دور خلافت راشدہ میں کسی بھی واقعہ میں قانون کو ہاتھ میں لینے کی بنا پر مجرم کو سزا نہیں دی گئی بلکہ جرم کا فیصلہ عدل وانصاف کے حقائق کی روشنی میں کیا گیا ہے جیسا کہ مذکورہ بالا تمام واقعات میں اہانتِ رسول ثابت ہوجانے پر مقتولین کے خون کو رائیگاں قرار دیا گیا۔
8. شریعت ِاسلامیہ کی ایک اُصولی ہدایت بھی ہے کہ برائی کا اِنسداد ہاتھ سے روک کرکیا
[1] سنن نسائی رقم:3999