کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 96
’’علامہ ابن الہمام فرماتے ہیں : هٰذا البحث منا یوجب أنه إذا استعلى على المسلمین على وجه صار متمردًا علیهم حل للإمام قتله أو یرجع إلىٰ الذل والصغار ’’ہماری اس بحث کا تقاضہ یہ ہے کہ اگر ذمّی (سب و شتم کی صورت میں ) مسلمانوں کے مقابلے میں سر کشی دکھاتے ہوئے باغیانہ روش اختیار کر لے تو حکمران کے لیے اسے قتل کرنا جائزہو جاتاہے ،الا یہ کہ وہ دوبارہ ذلت اور پستی کی حالت قبول کرنے پر آمادہ ہوجائے ۔‘‘ [1] حالانکہ امام ابن الہمام کا موقف ہم نے پہلے نقل کر دیاہے کہ وہ ذمی کی طرف سے اہانت رسول پر نقض عہد او ر اس کے قتل کا موقف رکھتے ہیں۔ موصوف نے خود بھی اپنی تالیف میں امام ابن الہمام رحمۃ اللہ علیہ کا یہی موقف بیان کیا ہے، ملاحظہ فرمائیں : ’’جمہور فقہااور احناف کے مابین ایک اختلافی نکتہ یہ ہے کہ آیا اہل ذمہ کی طرف سے سبّ و شتم کے ارتکاب کی صورت میں معاہدۂ ذمہ بر قرار رہتاہے یا ٹوٹ جاتاہے۔جمہور فقہا اسے ناقض عہد مانتے ہیں اور احناف میں سے امام ابوبکر الجصاص اور ابن الہمام کا رجحان بھی یہی ہے کہ سب و شتم کو نقض عہد کے ہم معنیٰ قرار دینا چاہیے ۔‘‘ [2] اس کے بعد اُنہوں نے ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کا ایک قول نقل کیا ہے۔ اصولاً تو ابن عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ کے کسی قول سے متقدمین کے موقف پر دلالت نہیں ہوتی جبکہ ان سے پہلے متعدد احناف امام اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور متقدمین احناف ہی کی پیروی میں احناف کے کلاسیکی موقف کو واضح کر چکے ہیں پھر انکے اس اقتباس سے یہ معلوم بھی نہیں ہوتا کہ احناف کا کلاسیکی موقف کیا تھا؟ حاصل کلام کے طورپر عرض ہے کہ پوری اُمت گستاخِ رسول خواہ کافر ہو یا مسلمان اس کے وجوبِِ قتل پر متفق ہے اور احناف کا مفتیٰ بہ قول یہی ہے کہ اس کی توبہ قبول نہیں اور اسے لازماً قتل کیا جائے گا۔ احناف اور جمہور فقہا کے مابین عملی نتیجہ کے اعتبارسے کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔ ہمیں اس مسئلہ پر سنجیدگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور حنفیت کی آڑ میں ناموسِ رسالت کے مجرموں کےساتھ ہمدردانہ رویہ اختیار کرنے کی خاطر دورکی کوڑی لانے کی بجائے احناف سمیت جمہور فقہا کے موقف کے مطابق پاکستان میں رائج قانون توہین رسالت کو دل و جان کے ساتھ قبول کر لینا چاہیے اور طاغوت کا آلۂ کار بننے سے اجتناب کرنا چاہیے ۔
[1] فتح القدیر: ۶۲/۶،۶۳بحوالہ توہین رسالت کا مسئلہ :۵۷ [2] توہین رسالت کا مسئلہ :۵۳