کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 9
اُن سے یہ معصومانہ توقع رکھتے ہیں؟ محقق موصوف کے علم میں ہونا چاہئے کہ 1992ء کے واضح جمہوری فیصلے اورعدالتی احکامات کے بعد جب پاکستانی حکومتوں کے لئے یہ ممکن نہیں رہا کہ وہ قانون امتناع توہین رسالت کو بدل سکیں تو پہلی بے نظیر حکومت نے اس قانون کے اجرا میں ہرممکن روڑے اٹکائے۔ 1994ء میں اس کو پولیس کی ذمہ داری (یعنی ریاست کے خلاف جرم ) سے نکال کر سیشن کورٹ یا مجسٹریٹ کے پاس بطورِ استغاثہ درج کرنے کا تنگ راستہ مقرر کیا گیا۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کو توہین رسالت کے جرم سے کوئی سروکار نہ رہا، اور یہ عوام پاکستان کا مسئلہ قرار پایا کہ اگر وہ پریشانی محسوس کریں تو سیشن جج یا مجسٹریٹ کے پاس جاکر فریاد کناں ہوں۔ پھر دوسری نواز شریف حکومت نے 1998ء میں اس جرم کے اندراج کے لئے ایسے چھ افراد پر کمیٹی بھی ضروری قرار دے دی جس میں دو عیسائی افراد اور ایک ڈپٹی کمشنر اور ایک ایس ایس پی شامل ہوں۔ پھر مشرف حکومت نے 2004ء میں اس جرم کی تفتیش کے لئے ضروری قرار دیا کہ ایس پی سے نچلے درجے کا کوئی افسر اس کیس کی تفتیش کرنے کا مجاز نہیں ہوگا۔ ان تمام تر تبدیلیوں کے باوجود بھی جب توہین رسالت کا کوئی وقوعہ پوری شدت سے رونما ہوجاتا ہے تو اُس وقت اِسی حکومت کا مدار المہام صدر زرداری اپنے نمائندے سلمان تاثیر کو شاتمہ رسول کے لئے یہ بشارت سنانے بھیجتا ہے کہ تمہیں بے فکر ہوجانا چاہئے۔ حکومتوں کے انہی رجحانات اور بعض اقدامات کا نتیجہ ہے کہ آج 19 برس گزر جانےکے باوجود بھی پاکستان میں توہین رسالت کے کسی ایک مجرم کو بھی سزائے موت نہیں ہوسکی۔ تاریخ کی ان مستند گواہیوں کے بعد بھی حکومت کے رجحانات میں خوشی فہمی کی توقع رکھنا، اس کو ترمیم کی دعوت دینا اور اس سے اصلاحِ احوال کی اُمید رکھنا نری سادگی ہے! مجوزہ ترامیم پر ایک ناقدانہ نظر یوں تو مضمون نگار کی موجودہ قانون میں مجوزہ تبدیلیاں ہی ان کے رخ کا بخوبی پتہ دے رہی ہیں لیکن اس جرم میں حکومت کو مدعی بنانا تو بالکل نامناسب ہے ۔اس کےغلط مضمرات یہ ہوں گےکہ حکومتِ وقت جب چاہے گی اس جرم کی نوعیت میں ترمیم وتبدیلی کرسکے گی یا اپنے دعوٰی سے دستبردار ہوجائے گی اوریہ جرم معاشرے میں ہوتا رہے گا۔ موصوف اس جرم کو جس ہلکے پھلکے انداز میں لے رہے ہیں ، اسے بھی کم سے کم الفاظ