کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 8
ویمن پروٹیکشن بل کی صورت میں جو شرم ناک قانون مسلط ہے، اس کو نافذ کرنے کے سلسلے میں جاوید غامدی کی خدمات کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا اور وہ عنداللہ اِس کی مسئولیت سے بری نہیں ہوں گے، کیونکہ مروّجہ حدود قوانین کی خامیاں پیش کرنے میں جو نکتہ رسیاں اُنہوں نے دکھائی تھیں، اس میں کوئی دوسرا حلقہ اُن کا سہیم وشریک نہیں تھا۔ حالیہ مباحثے سے مطلوبہ اصلاح کیونکر برآمد ہوگی؟ قانون توہین رسالت میں اصلاح ممکن ہے اور ہم بھی اس میں بعض اصلاحات پیش کرسکتے ہیں، مثلاً اس میں توہین کی یہ سزا صرف ذاتِ گرامی صلی اللہ علیہ وسلم کی حد تک خاص ہے، جبکہ شریعتِ اسلامیہ کا تقاضا ہے کہ یہ سزا تمام انبیا ے کرام علیہم السلام کی اہانت تک وسیع ہو اور وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں اس نکتہ کو شامل بھی کیا تھا، لیکن چونکہ اس وقت پاکستان میں مروّجہ قانون، وفاقی شرعی عدالت کے فیصلے کے بعد پارلیمنٹ کی 1992ء میں پاس کردہ قانون سازی کی بنا پر نافذ العمل ہے، اس لئے یہ پہلو اس میں موجود نہیں۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ موجودہ قانون توہین رسالت کا اصل اعتبار اور اعتماد، ضیا دور کی اسمبلی اور وفاقی شرعی عدالت کی بجائے 1992ء کی اسمبلی اور سینٹ کے متفقہ فیصلے پر ہے اور یہ خالص جمہوری تقاضے پورے کرنے والا ملکی قانون ہے۔ اصلاح کے بعض نکات کو اپنے تئیں تلاش کرلینا اور اس کو مشتہر کرنا ، جبکہ وہ اصلاح بھی درحقیقت اصلاح کی بجائے اِفساد ہی ہو، کوئی ایسا مشکل امر نہیں ۔ لیکن اگر مجلہ ’الشریعہ‘ کے مدیر محترم پاکستان میں شرعی قوانین کا فروغ چاہتے ہیں تو اُنہیں سمجھنا چاہئے کہ یہ حکمران اور یہ دور اس مقصد کےلئے قطعاً موزوں نہیں۔ ان کی یہ ’فاضلانہ کوششیں‘ صرف مروّجہ قانون اور معروف موقف کو، جو اُمت ِمسلمہ کی ایک عظیم اکثریت بلکہ قرآن وسنت کا براہِ راست منشا بھی ہے،متاثر کرنے کا ہی سبب بنیں گی اور ان کی دانشورانہ سرگرمیاں ان لوگوں کے لئے تحقیقی غذا کا کام دیں گی جو اس قانون کو مسخ کرکےآخرکار بے اثر کردینا چاہتے ہیں۔ وہ حکومت سے بڑی معصومیت سے یہ مطالبہ اس اعتماد کی بنا پر کررہے ہیں، گویا ان کی نظر میں ہماری حکومت کی منشا ومراد بھی یہ ہے کہ وہ اسلامی احکامات کو نافذ کریں۔ کیا اُنہیں اس حکومت کا جناب صوفی محمد کی نظامِ عدل کی تحریک کے ساتھ کیا گیا حشر یاد نہیں یا وہ اس حکومت کی امریکہ نوازی اور اسلام دشمنی کے تمام اقدامات کو مبنی بر انصاف سمجھتے ہیں جو