کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 7
یہ ہے ناموس رسالت کے مسئلہ پر کئی ماہ سے جاری بحث مباحثہ کا حاصل اور مدعا۔ مذکورہ بالا ترمیمی کاوش پر ہماری معروضات حسب ِذیل ہیں :
حدود قوانین پر قومی بحث مباحثے کا نتیجہ؟
ناموسِ رسالت کے تحفظ اور سزا کے جائزہ سے قبل، حدود قوانین کے سلسلے میں مضمون نگار نے جس بحث مباحثہ کا حوالہ دیا ہے، پہلے ہم اس کا ناقدانہ جائزہ لیتے ہیں کیونکہ اس سے زیر بحث مسئلہ پر مفید رہنمائی حاصل ہوگی۔ یہ درست ہے کہ حدود قوانین سوفیصد اسلامی نہیں بلکہ اس میں بہت سی خامیاں ہیں، تاہم اس قانون کو ترتیب دینے والے علما کے پیش نظر یہ تھا کہ پاکستانی معاشرے میں اینگلو سیکسن سزاؤں کی بجائے شرعی سزائیں جاری کی جائیں جو پاکستان کے قیام کا مقصد بھی ہے۔ اسی بنا پرعلما کی طرف سے اس کی تائید کی جاتی رہی جبکہ محقق موصوف جیسے بہت سےسکالر اُس وقت قوم کو حدود اسلامی پر مروّجہ موقف اور اس قانون کی خامیاں گنوانے میں لگے ہوئے تھے۔ ابھی قارئین کو وہ دور بھولا نہیں ہوگا جب جاوید احمد غامدی اور ان کے رفقا جنگ گروپ کے ’ذرا سوچئے‘ ایجنڈے کے زیر عنوان ’محققانہ سوچ‘ کو پروان چڑھانے میں مصروف تھے۔ غامدی صاحب کے اس انتشارِ فکری اور محققانہ سرگرمی کا یہ نتیجہ تو کہیں برآمد نہیں ہوا کہ مشرف حکومت نے اُن سے مشاورت کرکے حدود قوانین میں وہ اصلاح کردی جواُن کا منشا تھی، تاہم حکومت اور سیکولر طبقے نے اُن کی تحقیق سے یوں استفادہ کیا کہ عوام الناس میں انتشار اور علمائے کرام کو فکری ہزیمت سے دوچار کرنے کے لئے اُن کے ٹی وی پروگراموں اور مضامین کو بڑھا چڑھا کر نشر کیا اور اس کے نتیجے میں ’ویمن پروٹیکشن بل‘ کے نام سے ایسا بل لے آئے جو حدود قوانین سے کہیں زیادہ غیراسلامی تھا۔اس بل کے غیراسلامی ہونے پر پاکستان کے تمام معروف ومسلّمہ دینی حلقے متفق ومتحد تھے۔اب یا تو جاوید احمد غامدی اور ان کے رفقا اس بل کے عین اسلامی یا کم ازکم حدود قوانین کی بہ نسبت اسلام سے قریب تر ہونے کا دعویٰ کریں تو ان کو حقیقت کا آئینہ دکھا یا جائے اور غامدی محققین کے لئے آج توہین رسالت کے قانون کے لئے ویسی ہی محققانہ سرگرمی کا جواز قبول کیا جائے۔ ہمارے خیال میں غامدی محققین حدود قوانین کے مرحلے پر سیکولر مقاصد اور مغرب نواز ایجنڈے کے لئے اس بری طرح استعمال ہوئے کہ اِس کو کم ازکم الفاظ میں شرم ناک اور عبرت آموز قرار دیا جاسکتا ہے۔ آج پاکستانی قوم پر