کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 6
کار علماکی ایک کمیٹی نے ان میں سے بعض قوانین کو شرعی لحاظ سے قابل اصلاح تسلیم کرتے ہوئے خود ان میں ترمیم کے لئے تجاویز پیش کیں۔ اس سارے عمل سے ذہنوں میں ایک سوال تو یہ پیدا ہوا کہ اگر قانون میں خامیاں موجود تھیں تو گزشتہ تیس سال میں مذہبی حلقوں نے ان کی اصلاح کے لئے کوشش کیوں نہیں کی اور ہر موقع پر یہ اِصرار کیوں کیا جاتا رہا کہ ان قوانین کو چھیڑنا حدود اللہ اور احکام شرعیہ میں مداخلت کے مترادف ہے۔‘‘[1]
قانون توہین رسالت میں تجویز کردہ ترامیم
اس تحریر کے مصنّف نے اس اساس پر اپنے تئیں قانون توہین رسالت کے ضمن میں ایک متبادل موقف پیش کرنے کی سعی کی ہے جو ان کے تفصیلی مضامین اور ان کے زیر ادارت مجلّہ کے صفحات پر پھیلی نظر آرہی ہے۔اپنے مضمون کے آخر میں اُنہوں نے واضح الفاظ میں اس ساری تحقیقی جدو جہد کا ہدف بھی واضح کردیا ہے، لکھتے ہیں:
’’توہین رسالت سے متعلق حالیہ قانون چند بنیادی اور اہم پہلووں سے نظر ثانی کا محتاج ہے، اس لئے جید اور ذمہ دار علما کی راہ نمائی میں مذہبی جماعتیں درج ذیل اُمور کو ملحوظ رکھتے ہوئے ایک ترمیم شدہ اورجامع مسودۂقانون پارلیمنٹ میں پیش کریں جس کا خلاصہ یہ ہے کہ
(1)جو شخص بھی دانستہ اسلام یا پیغمبر اسلام کی توہین کرے، اس کو پاکستان کے شہری حقوق سے محروم کردیا جائے۔ (2)اس جرم میں افراد کی بجائے پاکستان کی ریاست کو مدعی ہونا چاہئے۔ (3)پہلی مرتبہ جرم سرزد ہونے پر مجرم کو توبہ، معذرت اور معافی کا موقع دیا جائے، اگر اس کی بدنیتی ثابت ہوجائے اور اصلاحِ احوال نہ ہو تو اُس کی توبہ کو قبول نہ کیا جائے۔ (4) جرم کی نوعیت اور اثرات کے پیش نظر کم ترسزاؤں کی گنجائش رکھی جائے اور موت کی سزا، اس جرم کی انتہائی صورت میں اُسی وقت ہی دی جائے جب جرم کا سدباب اور اس کے اثرات کا اِزالہ اس کے بغیر نہ ہوتا ہو۔‘‘[2]
[1] ماہ نامہ ’الشریعہ‘ گوجرانوالہ...شمارہ جون 2011ء :ص53
[2] ایضاً:ص 55 ملخصًا