کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 5
تاثیر اور نفاذ کا یہ پہلو بھی خصوصیّت سے توجہ کا متقاضی ہے!!
اسلامی قوانین میں اختلافِ رائے کا مسئلہ
اس موقف کو پیش نظر نہ رکھنے کا نتیجہ ماضی میں بھی یہ نکلتا رہا کہ وہ حدود قوانین جنہیں بڑے خلوص کے ساتھ علماے کرام اور قانونی ماہرین نے مرتب کیا تھا، ان کی تعبیر اور درست ہونے پر آج تک متعدد آرا پائی جاتی ہیں۔ ہر کسی عالم وفقیہ کی تعبیر دوسرے صاحب علم کے رجحان سے لگا نہیں کھاتی اوروہ اس سے اختلاف کربیٹھتا ہے!!
1.جو لوگ آج ان حدود قوانین کی برملا تائید کرتے ہیں، وہ بھی اس بنا پر ایسا کرتے ہیں کہ اُن میں شریعت ِمحمدیہ پر عمل کرنے کا داعیہ اور جذبہ موجود ہے، اس لئے اُصولی طورپر ان کی تائید ہونی چاہئے ، نہ کہ اس بنا پر کہ یہ اسلام کے عین مطابق ہیں۔
2. ان اسلامی قوانین میں غلطی اور اصلاح کی بات آج وہ لوگ بھی کہہ رہے ہیں جو ان اسلامی قوانین میں ترمیم کے داعی ہیں جبکہ ماضی میں یہ قوانین انہی حضرات کے کبار علماے کرام کی مشاورت اور تائید سے مرتب ہوئے ہیں۔
3. جبکہ سیکولر طبقوں کو اسی بنا پر یہ بہانہ اختیار کرنے کا بھی موقع ملا ہے کہ
پاکستان میں مروّج اسلامی قوانین کا شرعی تشخص قابل غور ہے اور ان کی بنا پر شرعی آثار مرتب ہونے میں ایک سے زیادہ آرا ہوسکتی ہیں کیونکہ یہ قوانین کون سے اللہ کے الفاظ ہیں؟ یہ بھی تو ہماری طرح انسانوں کی ہی تعبیر ہیں جن میں کمی بیشی اور غلطی کا امکان موجود ہے۔ اس بنا پر ان قوانین کو ہدفِ تنقید بنانا یا اُنہیں ’سیاہ قانون‘ قرار دینے سے کونسا شریعت ِاسلامیہ پر حر ف آتا ہے؟
4. حال ہی میں جو لوگ قانون امتناع توہین رسالت کی مزعومہ اصلاح کے لئے میدان میں اُترے ہیں، وہ ماضی میں ہونے والی ایسی کاوشوں کا اظہار ان الفاظ میں کرتے ہیں:
’’جنرل پرویز مشرف کے دور میں حدود قوانین میں ترمیم کی ضرورت کے حوالے سے ذرائع ابلاغ میں بحث مباحثہ کا میدان سجایا گیا تو مذہبی حلقوں نے ابتدا میں سارا زور یہ ثابت کرنے پر صرف کیا کہ یہ قوانین اعلیٰ سطحی اسلامی ماہرین نے بہت گہرے غور وفکر اور مشاورت کے بعد بنائے ہیں اور ان میں جو خلا یا نقائص بتائے جاتے ہیں، وہ بے بنیاد ہیں، اس لئے ان میں کسی ترمیم کی ضرورت نہیں ۔تاہم آخر