کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 46
سے قتل کیا جائے گا۔ امام شافعی کے اصحاب کے اس میں مختلف اقوال ہیں۔ جہاں تک امام ابو حنیفہ اور ان کے اصحاب کا مذہب ہے تو وہ یہ کہ توہین رسالت کا مرتکب اگر ذمّی [1]ہے تو پہلی دفعہ اس کو قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ امام اس پر مناسب تعزیر جاری کرے گا،البتہ اگر وہ جرم کا ارتکاب مکرّر کرے، تو اس صورت میں اس کو قتل کیا جائے گا۔‘‘ [2]
2. ذمی کے بارے احناف کا موقف ، امام طحاوی کی زبانی ،علامہ ابن تیمیہ نے یوں بیان کیا ہے، جسے نامور حنفی فقیہ قاضی ابن عابدین شامی نے بھی ذکر کیا ہے :
وأما أبو حنيفة وأصحابه فقالوا: لا ينتقض العهد بالسبّ، ولا يقتل الذمي بذلك، لكن يعزر على إظهار ذلك... وحكاه الطحاوي عن الثوري
’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور ان کے شاگردوں کا کہنا ہے کہ ذمی کا عہد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دینے سے نہیں ٹوٹتا اور اس بنا پر ذمی کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ تاہم اس کی سزااس کو دی جائے گی ....اور یہی موقف طحاوی رحمہ اللہ نے ثوری رحمہ اللہ سے بھی نقل کیا ہے۔‘‘ [3]
قاضی ابن عابدین شامی ذمّی کو قتل کرنے کا جواز پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
وهو يدلّ علىٰ جواز قتله زجرًا لغيره إذ يجوز الترقي في التعزير إلىٰ القتل [4]
’’اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ دوسروں کو ڈرانے کے لئے اس کو قتل کرنا جائز ہے ، اس لئے کہ تعزیر قتل تک ہوسکتی ہے۔‘‘
3. علماے احناف کا ذمی کے بارے میں موقف یہ ہوا کہ اس کو شرعاً قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ سیاستاً(مصلحت ِعامہ یا حاکم کے اختیار) کے طور پر اس کو قتل کیا جائے گا۔یہ موقف اختیار کرنے کی وجہ یہ ہے کہ بعض حنفی علما کے نزدیک توہین رسالت کا جرم،ذمی کا
[1] ذمّی کے مسئلہ پر حنفیہ کے موقف کے تناظر میں قرآنِ کریم، احادیث صحیحہ اور آثار صحابہ رضی اللہ عنہم کی دلالت نہایت صریح ہے، تاہم یہ موضوع ہمارے دائرہ بحث سے باہر ہونےکی بنا پر ایک مستقل بحث کا متقاضی ہے۔
[2] مجلّہ مذکور: ص 19
[3] الصارم المسلول: 1/17
[4] ردالمحتار یعنی حاشیہ ابن عابدین: 16/230