کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 45
’’احناف کا زاویہ نگاہ یہ ہے کہ عمومی قانون کے طورپر سزاے موت کی بجائے کمتر سزاؤں کا نفاذ زیادہ قرین قیاس ومصلحت ہے۔‘‘ ظاہر ہے کہ فقہاے احناف کے موقف کی تعبیر کرنے کا اصل حق انہی معتمد حنفی علماے کرام کو ہی حاصل ہے۔ مذکورہ بالا عبارتوں میں خط کشیدہ الفاظ ملاحظہ کریں کہ کیا ان میں توہین رسالت کی مقررہ سزا کو بیان کیا گیا ہے یا اسے حاکم کی صوابدید پر چھوڑدیاگیا ہے۔ اگر اس کی سزا کو مقرر طورپر پیش کیا گیا ہے جیسا کہ اوپر ثابت ہوچکا ہے توپھر توہین رسالت کی سزا کو محض اس بنا پر حد قرار دینے سے رک جانا کہ بعض فقہا نے حدود کی لسٹ میں اُس کو درج نہیں کیا، ایک کوتاہی سے زیادہ نہیں۔ بعض فقہا کا اس کو حدود کی لسٹ میں درج کرنا یا نہ کرنا، ایک فنی اور تدوینی امر ہے، تاہم فقہی موقف اس باب میں بالکل واضح ہے۔ اور اس امر میں تو کوئی شبہ نہیں کہ حنفی فقہا کا اس کے مقررہ حد نہ ہونے پراتفاق کا دعویٰ کرنا سراسر باطل ہے ۔ ٭ بعض فقہا نے شتم رسول کو حدود کی فہرست میں بھی درج کیا ہے ، جیسے امام خلال نے اپنی کتاب أهل الملل والردة والزنادقة میں کتاب الحدود میں ’باب فیمن شتم النبی صلی اللہ علیہ وسلم ‘ کا تذکرہ کرکے اس کو حدود میں شمار کیا ہے۔ [1] احناف کے ہاں ذمّی شاتم رسول کی سزاے قتل حنفیہ کے ہاں شاتم رسول کا واجب القتل ہونا مسلمان مجرم کی حد تک تو اتفاقی ہے جس کی صراحت مذکورہ بالا عبارتوں کے علاوہ اجماعِ امت کی درجنوں تصریحات سے بھی ہورہی ہے جن میں احناف کی حد تک اجماع کا محل مسلم شاتم کی سزاے قتل تک تصریح شدہ ہے۔ تاہم اُن میں یہ اختلاف موجود ہے کہ بعض احناف کے نزدیک قتل کی یہ سزا ذمّیوں (دارالاسلام میں امان یافتہ غیرمسلم)کو شرعاً نہیں دی جائے گی، بلکہ سیاستاً( مصلحتاً) دی جائے گی۔ لیکن اس سلسلے میں بھی اس جرم کی اساس حنفیہ میں محاربہ وغیرہ کو قرار نہیں دیا گیا۔ 1.اس مسئلہ کی وضاحت مولانا مفتی رفیع عثمانی کے قلم سے ملاحظہ فرمائیے: ’’ [جہاں تک ذمّی کا تعلق ہے تو] امام مالک ، اہل مدینہ، امام احمد بن حنبل، فقہاے حدیث، خود امام شافعی کے نزدیک ذمّی کو بھی مسلمان کی طرح توہین رسالت کی وجہ
[1] اہل الملل والردۃ از امام خلال: 2/339