کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 43
گئی ہے اور اس کی کوئی فقہی توجیہ نہیں کی گئی جبکہ آخری چار اقتباسات میں اس جرم کو براہ ِ راست حد(مقررہ سزاوالا جرم ) بتایا گیا ہے۔دراصل اس جرم کو براہ ِ راست حد بنانے یا حد ارتداد کو لازم ہونے سے اگلے مسائل مثلاً ذمّی کے لئے سزا کے تعین اور توبہ کی قبولیت وغیرہ کے بارے میں فرق پیدا ہوتا ہے، اس بنا پر فقہا کے مابین جرم ہذا کی تعلیل وتوجیہ میں تو اختلاف ہے، تاہم اس فرق کی بنا پر مسلمان شاتم کے لئے اس کی سزا ے قتل میں کوئی فرق واقع نہیں ہوتا۔جبکہ علماے احناف میں ایسے فقہا بھی ہیں جنہوں نے اس جرم کو ارتداد ہونے کی بنا پر سزاے موت کے قابل بتایا ہے :
9. قاضی عیاض مالکی(متوفی 544ھ) نے امام ابو حنیفہ کایہ موقف بیان کیا ہے :
وَهُوَ مُقْتَضٰى قَولِ أَبي بَكْر الصِّدِّيْق رَضِىَ اللهُ عَنْهُ، وَلَا تُقْبَلُ تَوْبَتُهُ عِنْدَ هَؤُلَاءِ وَبِمِثْلِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ وَأَصْحَابُهُ وَالثَّوْرِيُّ وَأَهْلُ الْكُوفَةِ وَالْأَوْزَاعِيُّ فِي الْمُسْلِمِ، لَكِنَّهُمْ قَالُوا هِيَ رِدَّةٌ. وَرَوَى مِثْلَهُ الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ عَنْ مَالِكٍ رَحِمَهُ اللَّهُ وَحَكَى الطَّبَرِيُّ مِثْلَهُ عَنْ أَبِي حَنِيفَةَ وَأَصْحَابِهِ فِيمَنْ يُنْقِصُهُ صلی اللہ علیہ وسلم أَوْ بَرِئَ مِنْهُ أَوْ كَذَّبَهُ [1]
’’[امام ابن المنذر کے بیان کردہ دعوائے اجماع [2]کے بعد قاضی عیاض فرماتے ہیں:] اور یہی سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے فرمان کا تقاضا ہے ۔ مذکورہ بالا تمام ائمہ کے نزدیک شاتم رسول کی توبہ قبول نہیں کی جائے گی، یہی موقف مسلمان کے بارے میں امام ابو حنیفہ، ان کے متبعین، ثوری، اہل کوفہ اور امام اوزاعی کا ہے، تاہم اُنہوں نے اس جرم کو اِرتداد قرار دیا ہے۔ ولید بن مسلم نے امام مالک کا بھی یہی موقف بیان کیا ہے جبکہ طبری نے امام ابو حنیفہ اور ان کے متبعین کا اس بدبخت کے بارے میں بھی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تنقیص کرے، آپ سے براءت کا اظہار کرے یا آپ کی تکذیب کرے، یہی موقف بیان کیا ہے ۔‘‘
امام ابو حنیفہ کے بارےمیں یہی بات علامہ ابن نجیم حنفی (م 970ھ)نے بھی لکھی ہے :
فَعُلِمَ أَنَّ قَوْلَهُ "وَبِمِثْلِهِ قَالَ أَبُو حَنِيفَةَ" أَيْ قَالَ: أَنَّهُ يُقْتَلُ لٰكِنْ
[1] الشفاء بتعریف حقوق المصطفیٰ للقاضی عیاض:2/215
[2] امام ابن المنذر کےاس دعوائے اجماع کی عبارت پیچھے نمبر2 کے تحت گزر چکی ہے۔