کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 41
ہے۔پھر مولانا محمد یوسف لدھیانوی نے توہین رسالت کی سزا کے قتل ہونے پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع بھی نقل کیا ہے۔ جس سے معلوم ہوتا ہے کہ احناف کے ہاں نہ تو اس جرم کی سزا کے قتل ہونے میں اختلاف ہے اور نہ ہی جرم کی تکرار یا کمی بیشی کے لحاظ سے ان کے ہاں اس کی سزا میں کوئی فرق پیش نظر رکھا گیا ہے۔ یہ بات احناف پر ایک الزام ہے کہ وہ اسے ایک تعزیر سمجھتے ہیں یا چھوٹی موٹی سزاؤں سے شاتم کی تادیب کا رجحان رکھتے ہیں۔
3. سنن نسائی کے شارح علامہ ابو طیب سندھی حنفی لکھتے ہیں:
وحكم الساب يقتل [1]
’’نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دشنام طرازی کرنیوالے کی سزا یہ ہے کہ اس کو قتل کردیا جائے۔‘‘
4. اس باب میں فقہ حنفی کی مستند ترین عبارت درج ذیل ہے:
قال أبو يوسف: وأيما رجل مسلم سبّ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم أو كذبه أو عابه أو تنقصه فقد كفر بالله تعالىٰ وبانت منه امرأته فإن تاب وإلا قتل وكذلك المرأة إلا أن أبا حنيفة قال: لا تقتل المرأة وتجبر علىٰ الإسلام [2]
’’قاضی ابویوسف کہتے ہیں کہ کوئی بھی مسلمان جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم كی شان میں گستاخی کرے، یا ان کی تکذیب وتنقیص کرے، یا اُن کی عیب جوئی کرےتو اس نے اللہ تعالیٰ سے کفر کیا اور اس کی بیوی طلاق یافتہ ہوگئی۔ اگر وہ توبہ کرے تو درست وگرنہ اس کو قتل کردیا جائے۔ یہی حکم عورت کا ہے ، تاہم امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا کہنا ہے کہ عورت کو قتل نہیں کیا جائے گا اور اسے اسلام کی طرف آنے پر مجبور کیا جائے گا۔‘‘
5. علماے احناف میں خاتمة المحَقّقین کے لقب سے یاد کئے جانے والے علامہ ابن ہمام حنفی (متوفیٰ 861ھ)لکھتے ہیں:
کل من أبغض رسول صلی اللہ علیہ وسلم بقلبه کان مرتدًا، فالسِّباب بطریق أولىٰ ثم یقتل حدًّا عندنا فلا تعمل توبته في إسقاط القتل. قالوا هٰذا مذهب أهل الكوفة ومالك ونقل عن أبي بكر الصديق رضي الله
[1] حاشیہ سندھی بر سنن نسائی: 2/153
[2] کتاب الخراج: ص 182، دار المعرفہ، بیروت 1979ء