کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 4
وضاحت اس اجمال کی یہ ہے کہ یہ حق صرف قرآن وحدیث یعنی ’وحی الٰہی‘ کو ہی حاصل ہے کہ اس کی پابندی کو اللہ ربّ العزت کا منشا قرار دے کر عامّۃ المسلمین پر نافذ کیا جائے۔ کتاب وسنت ہی معصوم ہیں، ان میں غلطی کا کوئی امکان نہیں اور کتاب وسنت ہی قیامت تک غیرمتبدل اور دائمی شریعت ہیں، ہر قسم کے معاشرے اور ہر دور میں ان کی پیروی کرنا مسلمانوں پر فرض ہے جبکہ کتاب وسنت سے مستنبط بہتر سے بہترین قانون یا فقہ اسلامی بھی ، چاہے وہ ائمہ اسلاف رحمہ اللہ کی مرتب کردہ ہو، عصمت کا مقام ومرتبہ نہیں پاسکتی۔ فقہا ے عظام رحمہ اللہ کی فقہی آرا میں تعدد واختلاف اس امر کی دلیل ہے کہ ان میں سے حق اور منشائے الٰہی کسی ایک موقف کے ساتھ ہے، اور تمام فقہی آرا بیک وقت حق نہیں ہیں۔ائمہ فقہا کی آمد اور فقہی جہود ومساعی سے قبل بھی خیر القرون میں کتاب وسنت پر ہی عمل ہوتا تھا۔ اس لحاظ سے شریعت ِاسلامیہ کے کسی بھی موقف کو پہلے قانونی الفاظ کی شکل دے کر نافذ کرنا دراصل شریعتِ اسلامیہ کے نام پر بعض ایسے فاضل انسانوں کی شرعی رائے (فقہ) کو نافذ کرنا ہے جن سے غلطی کا صدور ہوسکتا ہے۔ ایسے قوانین کبھی غلطی سے کلّی طورپر پاک نہیں ہوسکتے اور ان پر تمام مسلم اہل علم کا حقیقی اور کلّی اتفاق اَمر محال ہےجس پر مسلمانوں میں قانون سازی کی مختصر تاریخ شاہد ِعدل ہے۔ الغرض ضرورت اس بات کی ہے کہ کتاب وسنت کو براہِ راست نافذ کیا جائےاور اس کے لئے ماہرین شریعت کو تیار کیا جائے۔ یہ ماہرین شریعت کتاب وسنت کے معنیٰ ومفہوم کے تعین کے لئے فقہائے عظام کی تحقیق وتدقیق سے آزادانہ استفادہ کریں، لیکن کسی شخص کو سزا و جزا، کسی انسان یا بعض انسانوں کے متعین کردہ قانونی دفعہ کی بجائے، اللہ ربّ العزت کے قول ومراد(قرآن وحدیث) کی بنا پر ہی دی جائے۔ اسی میں تقدس ہے اور یہی قرآنی حکم ﴿لَمْ يَحْكُمْ بِمَا اَنْزَلَ اللّٰهُ...﴾کا تقاضا ہے!!
مزید برآں ہمارے مروّجہ جمہوری نظام کو کسی شرعی حکم کو قانون قرارد ینےکے پیچھے جو قوت کارفرما ہے، وہ ’دلیل شرعی‘کی بجائے ووٹنگ کی قوت پر استوارہے۔ اس بنا پر پاکستانی معاشرے میں زکوٰۃ دینا یا شراب کا ممنوع ہونا اس پر موقوف نہیں کہ یہ قرآن وسنت کا حکم ہے، بلکہ اس بنا پر ممنوع ہے کہ عوامی نمائندوں کی اُس اکثریت نے اس قانون کو پاس کیا ہے جو شریعت ِاسلامیہ سے ناواقف ہے۔اس بناپر ان بظاہر شرعی قوانین کی اطاعت کیا اللہ کی اطاعت شمار ہوگی یا جمہوریت کے عوامی نمائندوں اور نظام کی؟ ظاہر ہے کہ اسلامی قوانین کی