کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 31
کاسبب یہ تھا کہ اپنی توہین کو معاف کردینا آپ کا ہی حق تھا،آپ چاہتے تو اس کا پورا بدلہ لیتے اور چاہتے تو اسے چھوڑ دیتے، تاہم آپ کی اُمت کے لئے آپ کے حق کی تکمیل چھوڑنے کا کوئی جواز نہیں ہے۔مزید برآں اس جیسے واقعات اوّلین دور کے ہیں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم معافی اور درگزر کرنے کا حکم دیے گئے تھے۔ اس وقت آپ تالیف ِ قلب، کلمہ اسلام کو مجتمع رکھنے اور لوگوں کے متنفر ہوجانے کے ڈر سے معافی کا راستہ اختیار کیا کرتے اور اس لئے بھی کہ دشمن یہ نہ کہتے پھریں کہ آپ تو اپنے ساتھیوں کو قتل کردیتے ہیں۔ الغرض شتم رسول پر تمام قسم کی معافیاں آپ کی حیاتِ طیبہ سے ہی مخصوص ہیں۔‘‘ اس بنا پر شاتم رسول کے لئے قرآن وحدیث میں سزاے موت ایک مقرر سزا کے طورپر بیان ہوئی ہے۔ اس مسئلہ پر صحابہ سے لے کر آج تک اجماع اُمت چلا آتا ہے، اور واضح ہے کہ اجماع کی ان عبارتوں میں کہیں اس سزا کے لئے تکرار وغیرہ کی شرط کا کوئی تذکرہ نہیں اور نہ ہی کوئی ہلکی پھلکی سزائیں پیش کی گئی ہیں۔ کیا اس کو سب سے پہلے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے حدّ قرار دیا ! مضمون نگار کا دعویٰ ہے کہ آٹھویں صدی میں علامہ ابن تیمیہ نے سب سے پہلے شتم رسول کو حد قرار دے کر تعبیر کی غلطی کو بنیاد فراہم کی۔ مزيد برآں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ شاتم رسول کی مقررہ سزا نہ ہونے پر اُمت ِاسلامیہ میں اتفاق ہے۔ ان کے یہ دونوں دعوے سراسر غلط ہیں۔کیونکہ 1.خیر القرون میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کا اس جرم کی سزا کے قتل ہونے پر اجماع ہوچکا تھا، جیسا کہ حافظ ابن قیم اور حنفی عالم مولانا یوسف لدھیانوی کے ذریعے اس کی صراحت پیچھے گزر چکی ہے۔ اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی یہ صراحت امام ابن تیمیہ، قاضی ابن عابدین شامی[1] اور قاضی عیاض نے بھی کی ہے۔قاضی عیاض (متوفیٰ: 544ھ) لکھتے ہیں: اعلم - وفقنا الله وإياك - أن جميع من سب النبي صلی اللہ علیہ وسلم ، أو عابه، أو ألحق به نقصًا في نفسه، أو نسبه، أو دينه، أو خصلة من خصائله، أو عرض به، أو شبهه بشيء على طريق السب له، أو الإزراء
[1] قاضی شامی اور ابن تیمیہ کی اجماع صحابہ پر دالّ عبارتیں آگے بالترتیب نمبر10اور 13 کے تحت ملاحظہ فرمائیں۔