کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 30
حكم النبي صلی اللہ علیہ وسلم وقضائه فيمن سبه. وأما تركه صلی اللہ علیہ وسلم قتل من قدح في عدله صلی اللہ علیہ وسلم بقوله: "اعدل فإنك لم تعدل" وفي حكمه صلی اللہ علیہ وسلم بقول: "أن كان ابن عمتك." وفي قصده صلی اللہ علیہ وسلم بقوله: "إن هذه قسمة ما أريد بها وجه الله" أو في حكومته صلی اللہ علیہ وسلم بقوله: "يقولون إنك تنهٰى عن الغي وتستحلي به فذلك أن الحق له فله أن يستوفيه وله أن يتركه وليس لأمته ترك استيفاء حقه صلی اللہ علیہ وسلم . وأيضًا فإن كان هذا في أول الأمر حيث كان صلی اللہ علیہ وسلم مامورًا بالعفو والصفح وأيضًا فإنه كان يعفو عن حقه لمصلحة التاليف وجمع الكلمة ولئلا ينفِّر الناس عنه ولئلا يتحدثوا أنه يقتل أصحابه وكل هذا يختص بحياته صلی اللہ علیہ وسلم [1] ’’ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے بعد خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم کا یہی فیصلہ ہے جس کا صحابہ کرام میں سے کوئی بھی مخالف نہیں اور اللہ تعالیٰ نے اُنہیں اس حکم کی مخالفت سے بچاے رکھا۔ اس ضمن میں دس سے اوپر احادیث ِمبارکہ وارد ہوئی ہیں جن میں صحیح، حسن اور مشہور احادیث شامل ہیں اور اس مسئلہ پر اجماعِ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہے۔ اس باب میں صحابہ کرام سے مروی آثار تو بہت زیادہ ہیں اور ایک سے زائد ائمہ اسلاف سے شاتم کے سزائے قتل پر اجماع کی صراحت بھی منقول ہے۔ ہمارے استاد شیخ ابن تیمیہ کہتے ہیں کہ یہ سب اُمور صدرِ اوّل میں صحابہ کرام اور تابعین کے اجماع پر دلالت کرتے ہیں۔ ہمارا یہاں آپ کو سبّ وشتم کرنے والے بدبخت کے لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم اور فیصلہ کو بیان کرنا ہی مقصود ہے۔جہاں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بدبخت کو چھوڑ دینا ہے جس نے آپ کے وصف ِعدل میں یہ کہہ کر الزام تراشی کی تھی کہ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصاف فرمائیے، آپ نے انصاف نہیں کیا۔‘‘ اور جس نے آپ کے فیصلہ میں یہ کہہ کر بداعتمادی ظاہر کی تھی کہ ’’یہ اس لئے آپ نے کیا ہے کہ وہ آپ کی پھوپھی کا بیٹا ہے، [اس لئے آپ کا فیصلہ اس کے حق میں ہے]‘‘ اور جس نے آپ کے ارادہ میں یہ کہہ کر عیب جوئی کی تھی کہ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس تقسیم کے ذریعے اللہ کی رضا پوری نہیں کی۔‘‘ اور جس نے آپ کی خلوت پر یوں طعنہ طرازی کی تھی کہ ’’آپ تو گمراہی سے روکتے ہیں لیکن خود اس کو گوارا کرتے ہیں۔‘‘ تو ان گستاخیوں کو نظرانداز کرنے
[1] زاد المعاد از علامہ ابن قیم جوزیہ: 5/59