کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 3
ہے۔ حال ہی میں امتناعِ توہین رسالت کے قانون پر آسیہ مسیح کیس اورسلمان تاثیر کے قتل کے دوران شدید دباؤ دیکھنے میں آیا لیکن اس حساس موضوع پر دینی حلقوں کے جذبات کو پیش نظر رکھتے ہوئے حکومتِ وقت نے اس معاملہ کو فوری طور پر ٹال دیا ۔ الحاد وبے دینی کے اس دور میں قانون توہین رسالت کا یوں تحفّظ بہر حال خوش آئند ہے!!
بظاہر تو یہ معاملہ فی الحال سرد پڑ چکا ہے، اور اس بارے میں حکومت وعوام کے مابین کوئی سرگرمی دکھائی نہیں دیتی، حتیٰ کہ بعض دینی رہنما مبارکبادی مضامین لکھ کر معاملے کو نمٹا بھی چکے ہیں لیکن پنجاب کے بعض علمی حلقوں نے اس قانون کو تاحال خصوصی دلچسپی کا موضوع بنایا ہوا ہے۔ان کی کتب وجرائد میں یہ موضوع ایک مرغوب عنوان بن کر نت نئی تحقیقات سے وافر حصہ پارہا ہے۔یاد رہے کہ توہین رسالت کا موضوع مغرب میں جاری اہانت آمیزخاکوں اور قرآنِ مجید کے اوراق وغیرہ جلائے جانے،مزید برآں پاکستان میں مغرب زدہ این جی اوز کی دلچسپیوں اور گورنر سلمان تاثیر کے قتل کے بعد مزید حساسیت اختیارکرگیا ہے اور اس بارے میں بڑے محتاط انداز میں گفتگو کی جاتی ہے۔ اس تناظر میں بعض لوگ تو اس قانون کو سرے سے معطل کرنا چاہتے ہیں اور بعض ایسے اقدامات اور سفارشات تجویز کرتے ہیں جن کے نتیجے میں یہ قانون غیرمؤثر ہوکررہ جائے۔
ماضی میں جب امتناع توہین رسالت کا قانون متعارف ہوا تو اس کی زمینی ضرورتوں اور واقعاتی وجوہ کے ساتھ ساتھ اس کو اس مرحلے تک لانے میں کم وبیش آٹھ برس کا عرصہ صرف ہواتھا اور یہ پاکستان کے اہل علم کے متحدہ موقف کا ہی اعجا ز تھا کہ ضیاء دور کی پارلیمنٹ کو باوجود کوشش کے اس قانون میں رخنے رکھنے کا کوئی موقع نہ مل سکا۔محض یاد دہانی کے لئے یہ اشارہ کرنا مناسب ہے کہ 1985ء کی پارلیمنٹ کے وفاقی وزیر قانون اقبال احمد خاں جب وفاقی شرعی عدالت کے مطالبے اوراسمبلی میں پیش کردہ بل کے بعد اس امر پر مجبور ہوگئے کہ امتناعِ توہین رسالت کا قانون ’295 سی‘لے کرآئیں تو اُنہوں نے اس میں عمر رضی اللہ عنہ قید کی سزا کا اِمکان بھی پیدا کردیا جس کو بعد میں چھ سالہ مسلسل محنت کے بعد دوبارہ وفاقی شرعی عدالت نے حکومت کو نوٹس دے کر حذف کرایا اور 1992 ء کی پارلیمنٹ سے ڈرامائی انداز میں اس پورے قانون کی تائید ہوئی۔
پاکستان میں جاری اسلامی قانون سازی کے بارے میں ہمارا اُصولی موقف ، جو عرصۂ دراز سےمحدث کے صفحات میں شائع ہورہا ہے،یہ ہے کہ’’حدودقوانین کو حدود اللہ بنایا جائے۔‘‘