کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 29
فَقَالَ: لَوْ أَمَرْتَنِي لَفَعَلْتُ قَالَ أَمَا وَاللهِ مَا كَانَتْ لِبَشَرٍ بَعْدَ مُحَمَّدٍ [1] تو ابو برزہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : بالکل، تب ابو بکر رضی اللہ عنہ صدیق نے فرمایا: ہرگز نہیں! بخدا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی شخص کيلئے یہ سزا جائز نہیں (کہ اس کی گستاخی پر قتل کردیا جائے) 2. یوں تو اس موضوع پر بہت سے اُصولی فیصلے موجود ہیں، جن میں صحیح بخاری میں کعب بن اشرف یہودی اورابو رافع یہودی کے واقعات قابل ذکر ہیں، تاہم مذکورہ بالا حدیث میں ایک بار رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی گستاخی کرنے والے كے لئے بھی یہ سزا اُصولی طورپر بیان ہوئی ہے، اِس لئے ہم نے اس کو یہاں ذکر کردیاہے۔کعب بن اشرف کو قتل کرنے کی وجہ زبانِ رسالت سے یہ بیان ہوئی ہے: ((من لكعب بن الأشرف؟ فإنه قدآذى الله ورسوله)) [2] ’’کعب بن اشرف کو کون قتل کرے گا؟ اس نے اللہ اوراس کے رسول کو تکلیف واذیت سے دوچار کیا ہے۔‘‘ 3. اس مسئلہ پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے کہ شاتم رسول کی سزا قتل ہے۔ جیسا کہ علامہ ابن قیم الجوزیہ نے اس موضوع پر بڑا مختصر لیکن جامع موقف پیش کیا ہے: فهٰذا قضاؤه صلی اللہ علیہ وسلم وقضاء خلفائه من بعده ولا مخالف لهم من الصحابة وقد أعاذهم الله من مخالفة هذا الحكم. وفي ذلك بضعة عشر حديثًا ما بين صحاح وحسان ومشاهير وهو إجماع الصحابة... والآثار عن الصحابة بذٰلك كثيرة وحكي غير واحد من الأئمة: الإجماع على قتله. قال شيخنا: وهو محمول علىٰ إجماع الصدر الأول من الصحابة والتابعين والمقصود: إنما هو ذكر
[1] سنن أبي داؤد (4363)، سنن النسائي (4073)، ذخیرة العقبٰی في شرح المجتبی:32‎ ‎‎/27، السنن الکبرٰی للنسائي(3520 تا 3526)، مسند أحمد(54) 446-448، المستدرك :4‎ ‎‎/354، کتاب المختارة (20تا26)، مسند أبي بکر الصدیق للمروزي (66،67)، مسند أبي یعلیٰ (74-77) وفي نسخة (81،82)، مسند أبي داؤد الطیالسي(4)، مسندالبزار (49)، تهذیب الکمال:15‎‎‎/443، مسند حمیدي(6) امام حاکم نے اسے شیخین کی شرط پرصحیح کہا اور امام ذہبی رحمہ اللہ نے ان کی موافقت کی ہے۔ [2] صحیح البخاري (2510،1303،4037)، صحیح مسلم (1801)، سنن أبي داود (2768) السنن الکبرٰی للبيهقي:7‎‎‎/40 و9‎/81، شرح السنة للبغوي:11‎‎‎/43: 2692، المستدرك للحاکم:3‎ ‎‎/434 (5841)