کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 27
بھی حاصل ہے۔‘‘ [1] موصوف کے بیان کردہ موقف کا خلاصہ یہ ہے کہ 1.توہین رسالت کی سزا کتاب وسنت میں مقررہ طور پرکہیں بیان نہیں ہوئی۔ 2. صحابہ وتابعین اور ائمہ مجتہدین کے مابین اس امر میں کوئی اختلاف نہیں کہ یہ تما م اہل علم اسے ایک تعزیری سزا ہی سمجھتے ہیں۔ 3. اُن کے خیال میں توہین رسالت کی سزا کو اُمت ِمسلمہ میں سے کوئی بھی حد تسلیم نہیں کرتا اور سب سے پہلے اسے حد قرار دینے کی غلطی امام ابن تیمیہ سے سرزد ہوئی۔ 4. احناف کا زاویۂ نگاہ یہ ہے کہ عمومی قانون کے طورپر سزاے موت کے بجائے کم ترسزاؤں کا نفاذ زیادہ قرین قیاس ومصلحت ہے۔فقہاے احناف کے نزدیک پہلے پہل مجرم سے درگزر کرنا اور اس کو ہلکی پھلکی سزا دینے پر اکتفا کرنا مناسب ہے۔ 5. توہین رسالت کی سزا جرم کی شدت کے پیش نظر ہوگی، اور یہ سزا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاشرے میں فساد یعنی محاربہ کے نقطہ نظر سے دی ہے۔ مضمون نگار کے ان اقتباسات کے فوری بعد اگر جاوید احمد غامدی کے مسئلہ توہین رسالت کے بارے میں موقف کا مطالعہ[2] کیا جائے تو اس سے دونوں کے مابین گہرے اتفاق واشتراک کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، بلکہ ہمیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ جاوید غامدی کا موقف اس مسئلہ پر زیادہ صریح وواضح ہے جبکہ مضمون نگار کا موقف قدرے پیچیدہ اور اُلجھا ہوا نظر آتا ہے، کیونکہ وہ بہت سی باتیں واضح الفاظ میں نہیں کہہ سکتے جبکہ دونوں کا مقصد ونتیجہ ایک ہی ہے۔ یہاں دونوں موقفوں کے تقابلی مطالعے کی بجائے ذیل میں ہم شریعتِ اسلامیہ اور فقہ حنفی سے ان دعووں کا جائزہ لینے کے بعد جاوید غامدی کے موقف کا تذکرہ کریں گے۔ توہین رسالت کی شرعی سزا موصوف کے یہ دعوے سراسر غلط ہیں۔ کیونکہ احادیث ِنبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہ کے نہ صرف درجنوں واقعات بلکہ صریح احادیث میں اُصولی طورپر شتم رسول کی سزا کو قتل ہی قرار دیا گیا ہے۔ راقم الحروف نے احادیث میں توہین رسالت کے حوالے سے آنے والے ڈیڑھ درجن
[1] ایضاً:نکتہ نمبر 4، ص 65 [2] جاوید غامدی کے تحریری اقتباسات اس مضمون کے آخری صفحات میں ملاحظہ فرمائیں۔