کتاب: محدث شمارہ 350 - صفحہ 26
ہے۔ ہماری رائے میں یہ تعبیر بالکل غلط اور اختلاف کی نوعیت پر بالکل غور نہ کرنے یا شدید قسم کے سوءِ فہم کا نتیجہ ہے۔ فقہا کے مابین اختلاف اس کے حد ہونے یا نہ ہونے میں نہیں اور احناف کی طرح جمہور صحابہ وتابعین ، جمہور ائمہ مجتہدین اور جمہور محدثین بھی اس کو ’تعزیر‘ ہی سمجھتے ہیں۔‘‘ [1] آگے چل کر لکھتے ہیں کہ ’’ہماری تحقیق کے مطابق سب سے پہلے جس عالم نے توہین رسالت پرسزا ے موت کو شریعت کی مقرر کردہ حد قرار دینے پر اصرار کرکے تعبیر کی اس غلطی کو بنیاد فراہم کی ، وہ آٹھویں صدی کے عظیم مجدد امام ابن تیمیہ اور ان کے شاگرد امام ابن قیم رحمہما اللہ ہیں۔ممکن ہے بعد کے دور کے بعض فقہا نے اس اختلاف کو کسی جگہ محض تجوزًا اور توسّعًا حد ماننے یا نہ ماننے کے اختلاف سے تعبیر کردیا ہو لیکن جہاں تک صحابہ وتابعین ، جمہور محدثین اور ائمہ مجتہدین میں سے بالخصوص امام مالک، امام شافعی اور امام احمدکا تعلق ہے تو یہ بات پورے اطمینان سے کہی جاسکتی ہے کہ اُنہوں نے اس سزا کو ہرگز شرعی حد کے طورپر بیان نہیں کیا اور نہ فقہی مذاہب کی اُمہاتِ کتب میں اس سزا کو اس حیثیت سے پیش کیا گیا ہے۔‘‘ [2] اپنی بحث کے اختتام میں خلاصہ کے طورپر لکھتے ہیں : ’’اس جرم کے ارتکاب پر سزاے موت کو حد قرار دینے کے لئے قرآن یاحدیث میں کوئی قطعی یا صریح دلیل موجود نہیں۔ اس کا ماخذ عام طورپر ایسے واقعات کو بنایا گیا ہے جن میں ایسے افراد کو قتل کیا گیا جنہوں نے صرف سبّ وشتم کا نہیں، بلکہ اس کے علاوہ دیگر سنگین جرائم کا بھی ارتکاب کیا تھا یا سبّ وشتم کومستقل روش کے طورپر اختیار کیا تھا۔‘‘ [3] اب اُن کی زبانی فقہ حنفی کا موقف بھی ملاحظہ فرمائیے: ’’ جمہور فقہاے احناف کی رائے یہ ہے کہ اگر کوئی شخص وقتی کیفیت کے تحت اس جرم کا ارتکاب کرے، اور پھر اس پر اصرار کے بجائے معذرت کا رویہ اختیار کرے تو اس سے درگزر کرنا یا ہلکی پھلکی سزا پر اکتفا کرنا مناسب ہے۔البتہ اگر دیدہ دانستہ کیا جائے یا معمول کی صورت اختیار کرلے تو عدالت کو قتل کی سزا دینے کا اختیار
[1] کتابچہ ’توہین رسالت کا مسئلہ ‘: ص 16 [2] کتابچہ ’توہین رسالت کا مسئلہ ‘: ص 20 [3] ایضاً:نکتہ نمبر3، ص 65